یوتھ کانگریس سے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز کرنےوالی مہوا نے ۲۰۱۶ء میں پہلی مرتبہ ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر اسمبلی الیکشن میں قسمت آزمائی کی اور کامیاب رہیں اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
EPAPER
Updated: March 26, 2024, 11:11 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
یوتھ کانگریس سے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز کرنےوالی مہوا نے ۲۰۱۶ء میں پہلی مرتبہ ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر اسمبلی الیکشن میں قسمت آزمائی کی اور کامیاب رہیں اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
پارلیمنٹ میں جن چند اراکین سے بی جےپی خوف زدہ رہتی ہے، ان میں ایک اہم نام مہوا موئتراکابھی ہے۔ وہ انہیں پارلیمنٹ میں پہنچنے سے روکنے کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہے لیکن مہوا موئترا بھی ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہیں۔ وہ جہد مسلسل کا استعارہ ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی پارٹی اور ان کی پارٹی کی سربراہ ممتا بنرجی بھی ان کے ساتھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترنمول کانگریس نے مہوا موئترا کو ایک بار پھر کرشنا نگر سیٹ سے میدان میں اُتارا ہے جہاں ان کا مقابلہ بی جے پی کی امیدوار امریتا رائے سے ہوگا۔ امریتا رائے کا تعلق شاہی گھرانے سے ہے جنہیں مقامی لوگ ’راج ماتا‘ کہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: کیجریوال کی گرفتاری کیخلاف ’آپ‘ کا شدید احتجاج، دہلی کو پولیس اسٹیٹ بنادینے کا الزام
یوتھ کانگریس سے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز کرنے والی مہوا موئترا نے ۲۰۱۶ء میں اسمبلی انتخابات میں قسمت آزمائی کی اور کامیاب رہیں۔ اس کے بعد انہوں نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ۲۰۱۹ء کے لوک سبھاانتخابات میں انہیں ۴۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۶؍ لاکھ ۱۴؍ ہزار سے زائد ووٹ ملے تھے۔ بی جے پی نے مہوا کے مقابلے اُس الیکشن میں بھی ایک ’وی آئی پی‘ کلیان چوبے کو ٹکٹ دیا تھا جو مشہور فٹ بال گول کیپر ہیں۔ انہیں۴۰؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ کل ۵؍ لاکھ ۵۱؍ ہزار ووٹ ملے تھے۔ دوران انتخابات بی جے پی نے فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے اور الیکشن کو پولرائز کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی، اس کے باوجود اسے جیت کا ذائقہ چکھنا نصیب نہیں ہوسکا۔ حالانکہ یہ وہی حلقہ ہے جہاں ۱۹۹۹ء میں اس کے اُمیدوار ستیہ برت مکھرجی کو ایک مرتبہ کامیابی مل چکی تھی۔ ۲۰۲۱ء کے اسمبلی انتخابات میں ایک بار پھر اس نے وہی پولرائزیشن کی حکمت عملی اختیار کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ اسمبلی انتخابات میں کرشنا نگر لوک سبھا حلقے کی ۷؍ سیٹوں میں سے ۶؍ سیٹوں پر ترنمول کانگریس کے امیدوار جیتے جبکہ ایک سیٹ پر بی جے پی کے مکل رائے کامیاب ہوئے جو کسی زمانے میں ممتا بنرجی کے سپہ سالار کہلاتے تھے۔
نادیہ ضلع کے کرشنا نگر پارلیمانی حلقے میں مسلم رائے دہندگان فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں۔ ان کی آبادی ۳۶ء۳؍ فیصد ہے۔ بعد ازاں درج فہرست ذات (ایس سی) سے تعلق رکھنے والے دہندگان کی تعداد ۲۲ء۷؍ فیصد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں جس طرح ہوجائیں، ان کی جیت یقینی ہوجاتی ہے لیکن کچھ عرصے سے ان دو بڑے طبقات میں ہم آہنگی کا فقدان پایا جارہا ہے۔ بی جے پی رفتہ رفتہ ’ایس سی‘ کو اپنے پالے میں لانے میں کامیاب رہی ہے۔ شاہی گھرانے کی ایک عمر رسیدہ خاتون کو میدان میں اُتارنے کی بی جے پی کی حکمت عملی یہی ہے کہ اگر’ایس سی‘ کے کچھ ووٹوں کے ساتھ سخت گیر ہندوتواوالے رائے دہندگان اس کے خیمے میں آجائیں تو اس کا پلڑا بھاری ہوسکتا ہے، لیکن وہ یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ اس کا مقابلہ۲؍ آہنی خواتین( ممتا بنرجی اور مہوا موئترا) سے ہے جنہیں کرشنا نگر کے عوام کی بھرپور تائید حاصل ہے، اسلئے ’راج ماتا‘ کو لانے کے بعد بھی اسے بہت زیادہ اطمینان نہیں ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ امریتا رائے نے آتے ہی فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنا شروع کردیا ہے اور اس کھیل میں انہوں نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کو بھی گھسیٹ لیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مغربی بنگال بالخصوص کرشنا نگر کے رائے دہندگان خود کو بی جے پی کے جال سے کس حد تک محفوظ رکھ پاتے ہیں؟