دوبے نے کہا کہ وقف ترمیمی بل ۲۰۲۴ء پر کثیر تعداد میں موصول ہوئی آراء کے پیچھے بنیاد پرست تنظیموں، افراد، پاکستان کی آئی ایس آئی جیسی غیر ملکی خفیہ اداروں اور چین کے ممکنہ کردار کی جانچ ہونی چاہئے۔
EPAPER
Updated: September 25, 2024, 10:03 PM IST | New Delhi
دوبے نے کہا کہ وقف ترمیمی بل ۲۰۲۴ء پر کثیر تعداد میں موصول ہوئی آراء کے پیچھے بنیاد پرست تنظیموں، افراد، پاکستان کی آئی ایس آئی جیسی غیر ملکی خفیہ اداروں اور چین کے ممکنہ کردار کی جانچ ہونی چاہئے۔
بی جے پی رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے وقف ترمیمی بل ۲۰۲۴ء کی جانچ کیلئے بنائی گئی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو موصول ہونے والی تقریباً ایک کروڑ ۲۰ لاکھ آراء کے ماخذ کی جانچ کا مطالبہ کیا۔ گوڈا، جھارکھنڈ سے لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے دوبے اپنی مسلم مخالف بیان بازی کیلئے مشہور ہے۔ وہ وقف ترمیمی بل ۲۰۲۴ء کی جانچ کیلئے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔
ہندوتوا لیڈر نشی کانت دوبے نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال کو لکھے گئے خط میں کہا کہ موصولہ آراء کے ماخذ پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کی کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ صرف اندرون ملک سے ہی اتنی آراء موصول ہوئی ہیں۔
دوبے نے مزید کہا کہ ایسا ہونا کوئی غیر معمولی نہیں ہے کیونکہ ملک کے معاملات میں خصوصی دلچسپی لینے والے غیر ملکی اور ملکی گروپ، قانون سازی کے عمل کو متاثر کرنے کیلئے اس حربے کا استعمال کرتے آئے ہیں۔ اس کے باعث عوامی حمایت کا بھرم پیدا ہوتا ہے اور حقیقی عوامی رائے کا پتہ نہیں چل پاتا۔ دوبے نے مزید کہا کہ وقف ترمیمی بل ۲۰۲۴ء پر موصول ہوئی آراء کے پیچھے بنیاد پرست تنظیموں، افراد، پاکستان کے آئی ایس آئی جیسے غیر ملکی خفیہ اداروں اور چین کے ممکنہ کردار کی جانچ ہونی چاہئے۔ دوبے نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ قانون سازی کے عمل کی سالمیت اور آزادی کو یقینی بنانے کیلئے ان خدشات کو دور کرے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ۸ اگست لوک سبھا میں وقف ترمیمی قانون کا مسودہ پیش کئے جانے کے بعد اپوزیشن پارٹیوں نے سخت اعتراض کیا تھا اور بل کو "مسلم مخالف" اور "غیر آئینی" قرار دیا تھا۔ بعد ازیں، حکومت نے جانچ کیلئے مسودہ کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو سونپنے کا فیصلہ کیا۔ بل میں ۱۹۹۵ء کے وقف ایکٹ کے ۴۴ سیکشنز میں ترامیم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی نے مسودہ پر عوام، ماہرین، غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں سے تحریری تجاویز طلب کی تھیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق، کمیٹی کو بل کی حمایت اور مخالفت میں تمام ملک سے تقریباً ایک کروڑ ۲۰ لاکھ سے زائد ای میل ہوئے۔