• Wed, 26 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

پٹنہ میں پی ایم سی ایچ کی صد سالہ تقریب

Updated: February 26, 2025, 12:51 PM IST | Patna

صدرجمہوریہ دروپدی مرمو، بہار کے گورنر عارف محمد خان، بہا رکے وزیر اعلیٰ نتیش کمار ، مرکزی وزیر جے پی نڈا اور دیگر کی شرکت۔

From right, Samrat Chaudhary, Nitish Kumar, Draupadi Murmu, Arif Muhammad Khan, JP Nadda and Rojay Kumar Sinha. Photo: PTI
دائیں سے سمراٹ چودھری، نتیش کمار، دروپدی مرمو، عارف محمد خان، جے پی نڈا او روجے کمار سنہا۔ تصویر: پی ٹی آئی

 صدرجمہوریہ دروپدی مرمو نے کہا کہ ایک وقت تھا جب بہار کے ڈاکٹر دنیا میں مشہور تھے۔ لوگ دور دراز سے علاج کے لئے آتے تھے۔ درمیان کےکچھ برسوںمیں اچھے ڈاکٹروں کی نقل مکانی کی وجہ سے مریضوں کو معیاری علاج کے لئے ریاست سے باہر جانے پر مجبور ہونا پڑا۔ دوسری ریاستوں میں جانے پر علاج میں تاخیر، آمدورفت اور کھانا پانی کےعلاوہ اہل خانہ کا روزگار متاثر ہوتا ہے ۔ بڑے شہروں کے طبی اداروں پر بھی دباؤ بڑھتا ہے۔ ملک بھر میں اچھے طبی اداروں کی مرکزیت ختم ہونے سے ایسے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ چنئی، حیدرآباد، ممبئی اور اندور کے طرز پر بہار میں بھی علاج کے لئےکئی ملٹی اسپیشلیٹی ہاسپٹل تیار کئے جانے چاہئیں۔ اس سے نہ صرف ریاست کے لوگوں کو بہتر علاج میسر ہوسکے گا بلکہ میڈیکل ہب بن کر ریاست کی معیشت کو بھی فروغ ملے گا۔ اس میںپٹنہ میڈیکل کالج اینڈہاسپیٹل (پی ایم سی ایچ)کے سابق طلبہ اپنے تجربے سے بڑا کردار نبھاکربہار کے شاندار ماضی کو واپس لا سکتے ہیں۔ صدرجمہوریہ نے یہ باتیں منگل کو پی ایم سی ایچ کی صد سالہ تقریب میں مختلف ممالک سے آئے ہوئے۴۰۰؍ڈاکٹروںسمیت وہاں موجود ۴  ؍ ہزار سے زیادہ ڈاکٹروں سے کہیں۔ 
 صدرجمہوریہ دروپدی مرمو نے کہا کہ حکومت پی ایم سی ایچ کو۵۴۰۰؍کروڑ روپے سےدنیا کا دوسرا سب سے بڑا اسپتال بنا رہی ہے۔ اس میں جدید طبی سہولیات میسر ہوں گی۔ آج ٹیکنالوجی کا دور ہے، اس لئے آپ کو طبی میدان میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور روبوٹکس جیسی ٹیکنالوجی کو اپنا کر علاج کو مزید آسان اور درست بنانے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔کسی ادارےکی ترقی میں وہاں  کے اساتذہ اور طلبہ کا تحقیقی کام اہم کردار ادا کرتا ہے۔پی ایم سی ایچ میں کالا آزار اور بون ٹی بی پر کی گئی تحقیق کو دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کے کسی بھی کونےسے تعلیم، تحقیق اور علاج میں ماہرین سے مدد لی جا سکتی ہے۔ جس طرح آئی آئی ٹی بامبے، ٹاٹا میموریل اور  ایمیونوایکٹ نے پہلی دیسی کارٹ سیل تھراپی تیار کی، اسی طرح کی پہل پی ایم سی ایچ میں بھی کی جانی چاہئے۔ اس کے لئے پی ایم سی ایچ کے سابق طلبہ کو ایک ایسا نیٹ ورک بنانا چاہئے جہاں وہ تحقیق اور دیگر مسائل پر مشاورت کر کے نتائج تک پہنچ سکیں۔ اس سے نہ صرف ڈاکٹروں بلکہ پوری انسانیت کو فائدہ ہوگا۔ کئی بار ایمرجنسی مریضوں کو خون کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے، ایسے میں پی ایم سی ایچ کے اساتذہ اور طلبہ کی جانب سے باقاعدگی سے رضاکارانہ خون کے عطیہ اور اعضا کے عطیہ کا اقدام قابل تحسین ہے۔انہوں نے تمام ڈاکٹروںکو بے لوث خدمت کے جذبہ، عزم مصمم اور لگن کے ساتھ پی ایم سی ایچ کو نئی بلندیوں پر لے جانےکی تلقین  کی۔ 

یہ بھی پڑھئے: منترالیہ میں کسان کی خودکشی کی کوشش، ساتویں منزلہ سے حفاظتی جال پرگرا

اس موقع پر بہار کے گورنر عارف محمد خان، وزیر اعلیٰ نتیش کمار، مرکزی وزیر صحت اور خاندانی بہبود جے پی نڈا، نائب وزیر اعلیٰ سمراٹ چودھری، نائب وزیر اعلیٰ وجے کمار سنہا اور  وزیر صحت وزراعت منگل پانڈے بھی موجود تھے۔ گورنر عارف محمد خان نے گیتا میں درج کرشن اور ارجن کےمکالمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص محنت سے فطرت سے مطلوبہ چیز حاصل کرتا ہے اور اسے دوسروں کے ساتھ شیئر کئے بغیر استعمال کرتا ہے تو وہ چور ہے۔ میں نے دیکھا کہ پی ایم سی ایچ کے ڈاکٹروں نے دنیا میں جو کچھ کمایا ہے اسے اپنے ملک اور ریاست کے لوگوں میں بانٹنا چاہتے ہیں، یہ قابل تعریف ہے۔  یادرہےکہ  گنگا ندی کے کنارے واقع پٹنہ میڈیکل کالج واسپتال نے گزشتہ سو سال سے تعلیم اور خدمت دونوں میں بہترین رہنمائی کی ہے۔ اس کا تاریخی سفر۱۸۷۴ء میں ٹیمپل میڈیکل اسکول کے طور پر شروع ہوا تھا۔ ۲۰؍ ویں صدی کے اوائل میں خاص طور پر۱۹۲۵ء میں  نمایاں ترقی ہوئی جب ایک شاہی دورے کے حصے کے طور پر پرنس آف ویلز ایڈورڈ نے پٹنہ کا دورہ کیا۔ ان کے اعزاز میں ادارے کا نام بدل کر پرنس آف ویلز میڈیکل کالج رکھ دیا گیا جو کہ بذات خود کالج کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا ثبوت تھا۔اس میڈیکل کالج کا باقاعدہ افتتاح۲۵؍ فروری ۱۹۲۵ء کو ہوا تھا۔موجودہ وقت میں پٹنہ میڈیکل کالج۵۸؍ ایکڑ میں پھیلا ہوا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK