• Thu, 26 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

وی وی پیٹ کے متعلق مرکزی اطلاعات کمیشن کا الیکشن کمیشن سے شدید ناراضگی کا اظہار

Updated: April 12, 2024, 9:50 PM IST | New Delhi

ای وی ایم اور وی وی پیٹ کے متعلق آرٹی آئی کا جواب نہ دینے پر مرکزی اطلاعات کمیشن نے الیکشن کمیشن سے اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ وی وی پیٹ کی معتبریت کے تعلق سے پوچھے گئے سوال پر انتخابی باڈی خاموش۔ بااثر شہریوں کے ذریعے وی وی پیٹ کے متعلق سپریم میں دائر مقدمہ زیر سماعت۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

مرکزی اطلاعات کمیشن نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے اس وقت شدید ناراضگی کا اظہار کیا جب پولنگ باڈی کی جانب سے ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) اور وی وی پیٹ (ووٹر ویریفائیڈ پیپر آڈٹ ٹریل) کی پرچیوں کی ساکھ کو یقینی بنانے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں پوچھے گئے معلومات کے حق (آر ٹی آئی) کی درخواست کا جواب نہیں دیا گیا۔ وی وی پیٹ ایک مشین ہے جو ووٹ ڈالنے کے بعد امیدوار کے نام، سیریل نمبر اور پارٹی کے نشان کے ساتھ کاغذی پرچی پرنٹ کرتی ہے۔ انتخابی دھوکہ دہی سے بچنے کیلئے یہ کاغذ کی پرچی کو سات سیکنڈ کیلئے دکھاتی ہے تاکہ ووٹر یہ دیکھ سکیں کہ آیا ان کا ووٹ ان کے منتخب امیدوار کو ہی ڈالا گیا ہے۔ اس کے بعد کاغذ کی پرچی ایک مقفل ڈبے میں گر جاتی ہے جس تک صرف انتخابی کارندے ہی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ پرچیاں ووٹرز کے حوالے نہیں کی جاتیں۔ جمع شدہ پرچیوں کو الیکٹرانک طور پر ذخیرہ شدہ ووٹ کی گنتی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ 

یہ بھی پرھئے: مذہبی تبدیلی کو قانونی بنانے کیلئے معتبر ثبوت کی ضرورت ہے: الہ آباد ہائی کورٹ

خبروں کے مطابق ۲؍مئی ۲۰۲۲ءکو ممتاز شہریوں کے ایک گروپ نے بشمول پروفیسرز اور سابق بیوروکریٹس، الیکشن کمیشن کو ایک نمائندہ بھیجا تھا جس میں ای وی ایم اور وی وی پیٹ کی ساکھ کے بارے میں سوالات پوچھے گئے تھے۔ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے سابق افسر ایم جی دیواسہایم، جو نمائندگی پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک تھے، نے نومبر ۲۰۲۲ءمیں حق معلومات کے قانون کے تحت رائے شماری پینل کے پاس ایک درخواست دائر کی تھی۔ دیواسہایم نے ان افراد اور عوامی حکام جن کے رو برو نمائندگی آگے بھیجی گئی تھی۔ اور اس معاملے پر ہونے والی ملاقاتوں کی تفصیلات ما نگی تھیں۔ تاہم، الیکشن کمیشن نے ۳۰؍دن کی لازمی مدت میں جواب نہیں دیا۔ سینئر حکام سے دیواسہایم کی پہلی اپیل بھی نہیں سنی گئی۔ اس کے بعد سابق سرکاری ملازم نے دوسری اپیل میں مرکزی اطلاعات کمیشن سے رجوع کیا۔ 
الیکشن کمیشن کے سینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسرسے جب دیواسہا یم کی عرضی کے سلسلے میں پولنگ باڈی کے طرز عمل کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہ چیف انفارمیشن کمشنر ہیرالال سماریہ کو تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے۔ سماریہ نے کہا کہ ’’کمیشن نے کیس کے ریکارڈ اور سماعت کے دوران کی گئی گزارشات کا جائزہ لینے کے بعد اس وقت کے پی آئی او(پبلک انفارمیشن آفیسر) کے طرز عمل پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا جس میں آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت مقررہ وقت کے اندر آر ٹی آئی درخواست کا کوئی جواب فراہم نہیں کیا گیا تھا۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: نامساعد حالات میں ہندوستانی عوام کی اکثریت مذہبی تکثیریت کی حامی: رپورٹ

سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے متعلقہ پی آئی او کو ہدایت کی ہے کہ وہ معلومات کے حق ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی کیلئے تحریری وضاحت پیش کرے۔ الیکشن کمیشن سے کہا گیا ہے کہ وہ ۳۰؍ دنوں کے اندر معلومات کے حق سے متعلق سوال کا نکتہ وار جواب فراہم کرے۔ متعدد رپورٹس نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے حوالے سے ووٹروں کے درمیان عدم اعتماد کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 
جمعرات کو ایک پری پول سروے میں کہا گیا ہے کہ ۴۵؍ فیصدجواب دہندگان کا خیال ہے کہ یہ بہت یا کسی حد تک ممکن ہے کہ ای وی ایم میں حکمران بی جے پی کے ذریعے ہیرا پھیری کی جا سکتی ہے۔ جمعرات کو ۸۷؍سابق سرکاری ملازمین کے ایک گروپ نے الیکشن کمیشن کو ایک کھلا خط لکھا، جس میں باوجود اس کے کہ ایسا کرنے کیلئے آئین میں بہت زیادہ اختیارات موجود ہیں پولنگ پینل کےان اقدامات سے نمٹنے میں جو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد پر اثر انداز ہوتے ہیں عدم اعتمادی کو اجاگر کیا گیا۔ 
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے یکم اپریل کو ایک درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا ہے جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ ای وی ایم کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی تصدیق کیلئے تمام ووٹر تصدیق شدہ پیپر آڈٹ ٹریل کی پرچیوں کو ملایا جائے۔ فی الحال، ہر اسمبلی حلقہ میں صرف پانچ منتخب پولنگ اسٹیشنوں کی پرچیوں کی تصدیق کی جاتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK