امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل چارلس کیو براؤن کا دعویٰ، انہوں نے کہا کہ لبنان پُر سکون ہوچکا ہےلیکن ایران کی جانب سے حملے کا خطرہ برقرار ہے، ایران کا کہنا کہ اسرائیل سے انتقام کی کارروائی آزادانہ اورانفرادی طورپر کی جائے گی ، سمجھا جارہا ہےکہ ایران کا جواب ایسا ہوگا کہ جنگ کا دائرہ وسیع نہ ہو۔
امریکہ کےجوائنٹ چیف آف اسٹاف چارلس براؤن۔ تصویر : آئی این این
اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعدایران اور حزب اللہ کی اسرائیل کو دی جانے والی دھمکیوں کے بعدمشرق وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کے خطرات بڑھ گئے تھے لیکن اب امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل چارلس کیو براؤن کا کہنا ہے کہ جنگ بڑھنے کے خطرات بہت حد تک کم ہو گئے ہیں تاہم ایران بھی تک بڑا خطرہ بنا ہواہے کیوں کہ وہ اسرائیل پر حملے پر غور کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ لبنان پُرسکون ہوگیا ہے لیکن ایران کی جانب سے حملے کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔ براؤن کے مطابق گزشتہ ماہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کی تہران میں شہادت کے تناظر میں ایران حملے کی دھمکی دے رہا ہے اور اس نے اسرائیل کو اس کارروائی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ دوسری جانب تل ابیب نے اس میں ملوث ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔ امریکی جنرل نے مزید کہا ’’ ایران کے جواب کی نوعیت اسرائیلی رد عمل کا تعین کرے گی، پھر اسی بات پر یہ منحصر ہو گا کہ لڑائی کا دائرہ وسیع ہو گا یا نہیں۔ ‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ عراق اور شام میں ایران حامی مسلح گروپوں کی موجودگی بھی خطرہ ہے جو امریکی افواج پر حملہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح یمن میں حوثی ہیں جو بحیرہ احمر میں امریکی جہازوں کو نشانہ بناتے ہیں اور اسرائیل کی سمت ڈرون طیارے بھی بھیجتے ہیں۔ جنرل براؤن کے مطابق رواں سال۱۳؍ اپریل کو اسرائیل پر ایران کے غیر معمولی حملے کے مقابلے میں مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج اسرائیل اور اپنی فورسیز کا دفاع کرنے کے حوالے سے اب بہتر پوزیشن میں ہے۔
جنرل چارلس نے زور دے کر کہا کہ ’’ایرانی فوج جو بھی منصوبہ بندی کرتی رہے، فیصلہ کا اختیار ایران میں سیاسی قیادت کے پاس ہے ... وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں تاہم میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایسا کچھ نہیں کر یں گےجس سے تنازع کا دائرہ وسیع ہو۔ ‘‘جنرل براؤن نے یہ بیان مشرق وسطیٰ کا۳؍ روزہ دورہ مکمل ہونے کے بعد دیا ہے۔ وہ حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل پر متعدد میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے ذریعے حملے کے چند گھنٹے بعد تل ابیب گئے۔ جواب میں اسرائیلی فوج نے لبنان پر حملے کئے۔ گزشتہ ۱۰؍ ماہ سے زیادہ عرصے میں اسرائیل لبنان سرحد پر جاری جھڑپوں میں یہ سب سے بڑے تصادم میں سے ایک تھا۔
یہ بھی پڑھئے:پاکستان: بلوچستان دہشت گردانہ حملوں کے بعد دیگر ریاستوں سے آمدورفت متاثر
اسرائیل پر حملے کا خطرہ اب بھی موجود ہے: پنٹاگن
لبنانی حزب اللہ گروپ کی جانب سے کمانڈر فواد شکر کے قتل پر رد عمل میں اسرائیل پر۲۵؍ اگست کو متعدد راکٹوں اور ڈرون سے حملہ کیا گیا تھا۔ امریکی محکمہ دفاغ نے اس تعلق سے پیر کو کہا کہ اسرائیل پرحملےکا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ پنٹاگن کے ترجمان میجر جنرل پیٹرک رائڈر نے صحافیوں کو ایران اور حزب اللہ کی جانب سے حملو ں کے خطرے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔
جنرل پیٹرک رائڈر نے یہ بھی کہا کہ میں ایرانی لیڈروں اور دیگر کی طرف سے کیے گئے کچھ عمومی تبصروں کے حوالے سے کہوں گا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ حملے کا خطرہ ہے۔ رائڈر نے کہا کہ امریکہ نے پیشگی حملوں یا میزائلوں کو مار گرانے میں حصہ نہیں لیا لیکن حزب اللہ کے آئندہ حملوں کا سراغ لگانے کے سلسلے میں کچھ انٹیلی جنس، نگرانی، اور جاسوسی سے متعلق مدد فراہم کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اسرائیل کی حمایت کے ایک حصے کے طور پر خطے میں ۲؍ طیارہ بردار بحری بیڑوں کی موجودگی کا حکم دیا۔
ایران کا کیا کہنا ہے؟
ایران کے مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف محمد باقری نے کہا ہےکہ اسرائیل سے انتقام کی کارروائی آزادانہ اور انفرادی طورپر کی جائیگی۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کے خون کا بدلہ لینے کا فیصلہ یقینی ہے۔ جنرل باقری نے کہا کہ ہانیہ کے قتل کا جواب دینے کا فیصلہ ان کا ملک آزادانہ طور پر کرے گا۔ ایرانی خبر رساں ایجنسی’ارنا‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ بیان وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی کے اس بیان کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے اسرائیل کے اندر موجوداہم اور ا سٹرٹیجک اہداف پر حزب اللہ کے حملوں کو مؤثر قرار دیا تھا۔
اسرائیلی فو ج مزاحمتی طاقت کھوچکی ہے
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصرکنعانی نے اس سے قبل کہا تھا کہ اسرائیلی فوج اپنی جارحانہ صلاحیت اور مزاحمتی طاقت کھو چکی ہے۔ اب اسے اسٹرٹیجک حملوں کے خلاف اپنا دفاع کرنا چاہئے۔ وزیر خارجہ عباس عراقچی نے گزشتہ شام اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا ملک درست اور سوچ سمجھ کر جواب دے گا۔ اسے کشیدگی کا خوف نہیں ہے۔ مانا جارہا ہےکہ تہران آنے والے وقت میں اسرائیل کو اس طرح جواب دے گا کہ بڑے پیمانے پر جنگ چھڑنے کا خطرہ نہیں ہوگا۔