• Fri, 24 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

چھتیس گڑھ: جنگلاتی زمین کا حوالہ دےکرمحض مسلمانوں کے۶۰؍ گھر زمین دوز کردئے گئے

Updated: January 23, 2025, 4:08 PM IST | Inquilab News Network | Raipur

چھتیس گڑھ کے امبیکا پور قصبے میں مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے حکام نے جنگل کی زمین پر بسنے کا حوالہ دیتے ہوئے محض مسلمانوں کےگھروں کو بلڈوزر سے زمین دوز کردیا۔جبکہ اسی زمین پر بسے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والےخاندانوں کے گھروں کو چھوا تک نہیں گیا۔

A view of bulldozer work in Ghatishgarh. Photo: X
گھتیش گڑھ میں بلڈوزر کاررائی کا ایک منظر۔ تصویر: ایکس

چھتیس گڑھ کے امبیکا پور قصبے میں محکمہ جنگلات نے بلڈوزر کارروائی کرتے ہوئے ۶۰؍ مکانات کو مسمار کر دیا، جن کا تعلق مسلمانوں سے تھا۔محکمہ نے کی زمین ان مکانات کو جنگلاتی اراضی پر ناجائز تجاوزات قرار دیا۔جبکہ دیگر برادریوں کے افراد کی جائیدادیںاس کارروائی سےمحفوظ رہیں۔ایک مقامی مسلم لیڈر غلام مصطفیٰ نے مکتوب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنگل کی زمین پر ۲۰۰؍گھر ہیں لیکن صرف مسلمانوں کے گھر ہی گرائے گئے۔ جمعہ کی شام ساٹھ گھروں کو نوٹس بھیجے گئے۔ ہم نے انہدام کی مہم پر روک لگانے کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا، لیکن ہم پیر تک اسٹے حاصل نہیں کر سکے۔

یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش نے شیخ حسینہ کی حوالگی کیلئے ہندوستان کوآنکھ دکھانی شروع کردی

ریاست کے وزیر جنگلات کیدار کشیپ کے سرگوجا ضلع کا دورہ کرنے اور علاقے سے تجاوزات ہٹانے کے مطالبے کے تین دن بعد بلڈوزر کی کارروائی کی گئی۔ ۲۰۱۷ء میں، ان رہائشیوں کے خلاف ایک مہم چلائی گئی تھی، جس میں انہیں ’’روہنگیا‘‘ کہہ کر علاقے سے نکالنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم، چونکہ اس وقت ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی، اس لیے اس معاملے کو روک دیا گیا۔ مصطفیٰ کے مطابق یہمکین دو دہائیوں سے وہاں مقیم تھے۔ وہ جھارکھنڈ، بہار اور اتر پردیش کے مہاجر مزدور ہیں۔اگر آپ اس علاقے میں مزید جائیں تو وہاں دلتوں اور دیگر برادریوں کی آبادی ہے۔ لیکن صرف مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔
منگل کو، ایک مقامی مسلم گروپ، رضا یونٹی فاؤنڈیشن نے سرگوجا کلکٹر کو ایک میمورنڈم پیش کیا، جس میں بچوں، بوڑھوں اور خواتین سمیت بے گھر لوگوںکیلئے پناہ، خوراک، پانی اور ادویات کے عارضی انتظامات کا مطالبہ کیا گیا۔گروپ کے صدر شاداب رضوی کا گھر بھی مسمار کر دیا گیا۔ مقامی مسلم لیڈر تسلیم کرتے ہیں کہ زمین جنگل کی ہے، لیکن وہ سوال کرتے ہیں کہ مکانات کو کسی خاص ترتیب سے کیوں نہیں گرایا گیا۔ انتظامیہ نے علاقے کے وسط میں مسماری مہم کیوں شروع کی؟دریں اثنا، کانگریس کے لیڈر شفیع احمد نے بھی یکطرفہ انہدام کی مہم پر سوال اٹھائے،انہوں نے بتایا کہ یہ مکین گزشتہ ۲۰؍ سال سے وہاں رہ رہے ہیں۔اس وقت بی جے پی کی حکومت تھی، اور اب ریاست و مرکز دونوں میں بی جے پی کی حکومت ہے تو بنگلہ دیشی در انداز کس طرح سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔انہوں نے مزید کہا کہ پہلے ان باشندوں کے روہنگیا ہونے کی تحقیق کی گئی لیکن  کوئی ثبوت نہیں ملا ۔تو انتظامیہ کو ان کے بنگلہ دیشی ہونے کی بھی تحقیق کر لینے چاہئے تھی۔
ایک پوسٹ میں اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ریاستی وزیر او پی چوہدری نے دعویٰ کیا کہ علاقے میں رہنے والے لوگ بنگلہ زبان بولتے ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے سابقہ وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل پر بھی خوشامدی سیاست کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان سے پانچ سالہ کارکردگی کا حساب مانگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK