چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ ۱۲؍ دسمبر کو عبادتگاہوں کے قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والی خصوصی بنچ کی سربراہی کریں گے۔
EPAPER
Updated: December 07, 2024, 9:08 PM IST | New Delhi
چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ ۱۲؍ دسمبر کو عبادتگاہوں کے قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والی خصوصی بنچ کی سربراہی کریں گے۔
– چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ نے عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ ۱۹۹۱ء کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کیلئے تین ججوں کی ایک خصوصی بنچ تشکیل دی ہے۔ خیال رہے کہ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو آزادی کے بعد یہ قانون تمام عبادت گاہوں کی حیثیت کو برقرار رکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ چیف جسٹس کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل تین ججوں کی بنچ ۲۰۲۰ء سے التواء میں پڑے اس کیس کی سماعت ۱۲؍ دسمبر کو کرے گی۔ اس قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے علاوہ، عدالت اس کی حمایت کرنے والی درخواستوں پر بھی سماعت کر رہی ہے اور اس کے مناسب نفاذ کیلئے ہدایات طلب کررہی رہی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کیس کی سماعت پہلے ۵؍ دسمبر کو ہونی تھی لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے اس پر کارروائی نہیں ہو سکی۔
یہ بھی پڑھئے: دہلی فسادات:مجھے مورد الزام ٹھہرانے کا کوئی جواز نہیں بنتا: عمر خالد
سرکردہ درخواست گزار، بی جے پی لیڈر اشونی کمار اپادھیائے نے دلیل دی کہ قانون کے سیکشن بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں، بشمول قانون کے سامنے برابری (دفعہ ۱۴) اور مذہبی آزادی کا حق (آرٹیکل ۲۵) ۔ متعدد دیگر درخواست دہندگان نے متنازع مذہبی مقامات پر دوبارہ دعویٰ کرنے پر قانون کے ذریعہ عائد پابندیوں پر شکایات کا حوالہ دیتے ہوئے اس کیس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ وشوا بھدرا پجاری پروہت مہاسنگھ کی ایک اور درخواست میں دلیل دی گئی ہے کہ یہ ایکٹ ہندو عقیدت مندوں کے تجاوزات کے خلاف ازالہ حاصل کرنے کے حقوق میں رکاوٹ ہے۔ بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی کی درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایکٹ غیر ملکی جارحیت اور تبدیلی مذہب سے متاثر مندروں میں عبادت کرنے سے عقیدت مند ہندوؤں کو روک کر مذہب پر عمل کرنے کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ممتا بنرجی ’انڈیا‘ اتحاد کی قیادت کی متمنی
واضح رہے کہ گیانواپی مسجد کمیٹی نے بھی اس ایکٹ کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں میں مداخلت کرنے کی درخواست دائر کی ہے۔ ممتاز مسلم تنظیم، جمعیۃ علماء ہند نے اپنی درخواست میں ایکٹ کی دفعات کو نافذ کرنے کیلئے ہدایات مانگی ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی کرنے والے وکلاء بھی ۱۹۹۱ء کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر عدالت میں اپنے دلائل پیش کریں گے۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اسے ایک امید افزا پیش رفت قرار دیتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ایک بار پھر انصاف کی بالادستی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ۱۹۹۱ء میں جن حالات میں یہ قانون بنایا گیا تھا وہ آج کے حالات سے ملتے جلتے تھے جہاں ہر طرف نفرت کی لہر پھیلی ہوئی تھی اور لوگوں کو قانون شکنی پر اکسایا جا رہا تھا۔ اس لئے یہ قانون نفرت کے اس دروازے کو مستقل طور پر بند کرنے کیلئے متعارف کرایا گیا جو فرقہ پرست عناصر نے ملک کے امن، اتحاد اور بھائی چارے کو آگ لگانے کی کوشش میں کھولا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: اسپوٹیفائی گلوبل ٹاپ آرٹسٹ ۲۴ء: خطاب پر مسلسل دوسرے سال ٹیلر سوئفٹ کا قبضہ
اس ضمن میں حکومت سے بارہا ان درخواستوں کا جواب دینے کیلئے کہا گیا ہے لیکن سپریم کورٹ نے جامع جوابات کیلئے نئی ڈیڈ لائن مقرر کرنے کے ساتھ توسیع کی درخواست کی ہے۔ یہ مسئلہ اہم سماجی و سیاسی اثرات رکھتا ہے، خاص طور پر متھرا اور کاشی جیسے تاریخی متنازع مقامات سے متعلق۔ حال ہی میں سنبھل کی جامع مسجد اور اجمیر کی درگاہ کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کی آئندہ ہفتے کی سماعت تاریخی جمود کو برقرار رکھنے اور عصری مذہبی اور ثقافتی دعووں سے نمٹنے کے درمیان توازن کے حوالے سے ایک تاریخی عدالتی تشریح کا باعث بن سکتی ہے۔