سپریم کورٹ کی جانب سےطلب کئے جانے کے تین ہفتے بعد بھی جسٹس شیکھر کمار یادو نے اپنے تبصرے کیلئے کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔جبکہ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے الہ آباد ہائی کورٹ سے دسمبر میں جسٹس شیکھر یادو کے مسلم مخالف تبصرے کے بارے میں تازہ رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی۔
ہندوتوا نظریات کا حامی جج شیکھر کمار یادو۔ تصویر: آئی این این
انڈین ایکسپریس کے مطابق جسٹس یادوکے ذریعے دئے گئے مسلم مخالف بیان پر سپریم کورٹ کی جانب سے طلب کئے جانے کے تین ہفتے بعد بھی یادو نے اپنے تبصرے کیلئے کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔ یہ بیان انہوں نے وشو ہندو پریشد کے ایک پروگرام میں دیا تھا۔چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے الہ آباد ہائی کورٹ سے اس تبصرے کے بارے میں تازہ رپورٹ داخل کرنے کو کہا ہے۔ واضح رہے کہ یادو نے کہا تھا کہ ہندوستان اس کی مذہبی اکثریت ہندوؤں کی خواہش کے مطابق چلے گا۔اسی کے ساتھ مسلمانوں کیلئے حقارت آمیز الفاظ استعمال کئے، اور ساتھ ہی انہیں ملک کیلئے نقصاندہ قراردیا۔ یادو نے مزید کہا تھا کہ’’ وہ ایسے لوگ ہیں جو نہیں چاہتے کہ ملک ترقی کرے اور ہمیں ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘ہائی کورٹ کے موجودہ جج ہوتے ہوئے بھی انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں جلدہی تمام شہریوں کیلئے شادی، طلاق، جانشینی اور گود لینے کے قوانین کا ایک مشترکہ یکساں سول کوڈ نافذ کیا جائےگا۔
یادو ۱۷؍ دسمبر کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کالجیم کے سامنے پیش ہوئے تھے۔کالجیم نے ان کے تبصرے کیلئے وضاحت طلب کی تھی۔تاہم، یادو نے کوئی معافی یا وضاحت پیش نہیں کی۔ دریں اثناءکھنہ کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ارون بھنسالی سے تازہ رپورٹ طلب کرنے کے فیصلے کو یادو کے خلاف مبینہ بدانتظامی کیلئے اندرون خانہ تحقیق شروع کرنے کی جانب پہلے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔یادو کے بیان نے سیکولر ذہن شہریوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔کچھ ناقدین نے ان کے عدالتی کام کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا ۔۱۳؍دسمبر کو ۵۵؍اپوزیشن ممبران پارلیمنٹ نے راجیہ سبھا میں ان کے مواخذے کا مطالبہ کرتے ہوئے نوٹس داخل کیا۔ راجیہ سبھا رکن کپل سبل کی جانب سے شروع کی گئی ۲۱؍ صفحات پر مشتمل تحریک میں کہا گیا کہ جج کا تبصرہ قلیتوں کے خلاف تعصب کا مظہر ہے۔
یہ بھی پڑھئے: سنبھل جامع مسجد کیس کی ضلع عدالت میں سماعت پر ہائی کورٹ نے روک لگادی
منگل کو ہائی کورٹ نے یادو کے خلاف مواخذے کی تحریک کو چیلنج کرنے والی مفاد عامہ کی عرضی کو مسترد کر دیا۔اسکرول نے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں یادو کے متعدد حکم نامے کا تجزیہ کیا، جس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ان میں ہندوتوا ٹولے کےمماثل نکات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ایک فیصلے میں انہوںنے کہا تھا کہ ریاست کو گائے کے ساتھ ہندو دیوی دیوتاؤں کی بھی عزت کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے تبدیلی مذہب کو سازش سے تعبیر کیا ، ساتھ ہی لوگوں پر درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے مظالم کی روک تھام کے قانون کے تحت جھوٹی شکایتیں کرنے کا الزام لگایا۔