دہلی میں پارٹی کارکنوں کی میٹنگ میں کہا ’’ اب جب تک دہلی کے عوام فیصلہ نہیں سناتے،وزیراعلیٰ کی کرسی پر نہیں بیٹھوں گا۔ ‘‘
EPAPER
Updated: September 16, 2024, 11:57 AM IST | Agency | New Delhi
دہلی میں پارٹی کارکنوں کی میٹنگ میں کہا ’’ اب جب تک دہلی کے عوام فیصلہ نہیں سناتے،وزیراعلیٰ کی کرسی پر نہیں بیٹھوں گا۔ ‘‘
`’’اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں ایماندار ہوں تو مجھے بڑی تعداد میں ووٹ دیں۔ جب تک دہلی کے عوام اپنا فیصلہ نہیں سناتے میں وزیر اعلیٰ کی کرسی پر نہیں بیٹھوں گا۔ ۲؍ دن بعد وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دوں گا۔ انتخابات فروری میں ہونے ہیں۔ میرا مطالبہ ہے کہ نومبر میں مہاراشٹر کے انتخابات کے ساتھ دہلی میں بھی انتخابات کرائے جائیں۔ ‘‘ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے ان الفاظ میں اپنے استعفے کا اعلان کرکے سب کو چونکا دیا ہے۔ تہاڑ جیل سے رہائی کے صرف۴۰؍ گھنٹے بعد عام آدمی پارٹی کے کنوینر نے جس طرح وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا، اس نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ جب وہ دہلی ایکسائز پالیسی کیس میں تہاڑ جیل میں بند تھے تو انہوں نے استعفیٰ کیوں نہیں دیا۔ اب اس اچانک فیصلے کی وجہ کیا ہے؟ دہلی میں پارٹی کارکنو ں کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے اروند کیجریوال نے کہا کہ’’ بی جے پی کو یہ محسوس ہورہا تھا کہ مجھے جیل بھیج کر ہماری پارٹی توڑ دیں گے۔ ہمارے ایم ایل اے کو توڑ کر وہ دہلی اور پنجاب میں حکومتیں گرادیں گے۔ عام آدمی پارٹی ان کی سازشوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ میرا حوصلہ توڑ دیں گے لیکن انہوں نے میرا حوصلہ مزید بڑھا دیا ہے۔ ‘‘کیجریوال کے اعلان کے بعداگلےوزیر اعلیٰ کے تعلق سے قیاس آرائیاں تیز ہوگئی ہیں۔ کہا جارہا ہےکہ آتشی سنگھ اورمنیش سیسودیا میں سے کوئی وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے لیکن ذرائع کے مطابق منیش سیسودیا نے وزیر اعلیٰ بننےسے انکار کردیاہے۔
یہ بھی پڑھئے:یمن اور لبنان سے اسرائیل پرزبرد ست میزائل حملے
اروند کیجریوال کے بارے میں یہ سمجھاجاتا ہے کہ وہ کافی غوروخوض کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ گزشتہ۱۷۷؍ دنوں سے تہاڑ جیل میں بند تھے، اس دوران وہ استعفیٰ دےسکتےجبکہ کہا بھی جا رہاتھاکہ وہ جیل سے حکومت چلا رہے ہیں۔ اس دوران انہیں لوک سبھا انتخابی مہم کیلئے۲۱؍ دن کیلئے پیرول دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ مسلسل جیل میں رہے۔ بی جے پی سمیت اپوزیشن پارٹیاں ان پر مستعفی ہونے کا مسلسل دباؤ ڈال رہی تھیں۔ اس وقت انہوں نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ انہوں نے اور ان کی پارٹی نے فیصلہ کیا کہ اروند کیجریوال اپنی حکومت جیل سے چلائیں گے۔ جمعہ کو کیجریوال کو سپریم کورٹ سے مشروط ضمانت مل گئی اور انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا۔
ہر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے سربراہ کو یہ قدم کیوں اٹھانا پڑا؟ ماہرین کے مطابق کیجریوال کے اس فیصلے میں کہیں نہ کہیں سپریم کورٹ کےحکم کا دخل ہے جس میں ان پر کئی شرائط لگائی گئی ہیں جس کی وجہ سے دہلی کے وزیر اعلیٰ پر یہ فیصلہ کرنے کا دباؤ بڑھ گیا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ضمانت کی شرائط اروند کیجریوال کو بطور وزیر اعلیٰ اپنے فرائض انجام دینے کی مکمل آزادی نہیں دیتیں۔ یہ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ رہائی کے بعد بھی وہ سیکریٹریٹ یا سی ایم آفس نہیں جا سکتے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کسی فائل پر دستخط نہیں کر سکتے سوائے ان فائلوں کے جس کی منظوری لیفٹیننٹ گورنر سے لینی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے کیجریوال حکومت کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔
استعفیٰ کے ذریعے کیجریوال کا `جذباتی داؤ
ذرائع کے مطابق دہلی کےوزیراعلیٰ کیجریوال مشروط ضمانت کی وجہ سے کھل کر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ایسے میں انہوں نے استعفیٰ کا قدم اٹھانا ہی درست سمجھا۔ پارٹی لیڈروں سے بات کرنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ کسی اور کو دہلی کا وزیر اعلیٰ بنایا جائے۔ تاکہ دارالحکومت میں پھنسے تمام اہم کام جلد مکمل ہو سکیں۔ اتنا ہی نہیں، وزیر اعلیٰ کیجریوال نے دہلی میں جلد از جلد انتخابات کا مطالبہ بھی کیا ہے ، تاکہ وہ عوام کے درمیان اپنے استعفیٰ کا جذباتی کارڈ کھیل سکیں۔ فی الحال کیجریوال کے اس نئے اقدام نے اپوزیشن کو حیران کردیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ دہلی کے لوگ اس فیصلے کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ واضح رہےکہ ۲۰۲۰ء کے دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے ۶۲؍ سیٹیں جیتی تھیں۔ سمجھاجاتا ہےکہ وزیر اعلیٰ کیجریوال کو دہلی کے عوام کی بھرپورحمایت حاصل ہے اس لئے انہوں نےعوام پر ہی بھروسہ جتایا ہے۔