خانہ جنگی کے دوران شامی شہریوں کو ترکی میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے ترک سرحد پربنائی گئی خیموںکی بستیوں میں اب اہل غزہ کو آباد کرنے کا منصوبہ۔
EPAPER
Updated: April 12, 2025, 11:40 AM IST | Gaza Strip
خانہ جنگی کے دوران شامی شہریوں کو ترکی میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے ترک سرحد پربنائی گئی خیموںکی بستیوں میں اب اہل غزہ کو آباد کرنے کا منصوبہ۔
غزہ کے مظلوم شہریوں کو جبراً بیرونِ غزہ منتقل کرنے کے حوالے سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جو شوشہ چھوڑا ہے،اس پرخاموشی سے کام ہورہاہے۔یہ سنسنی خیز انکشاف صہیونی ذرائع ابلاغ نے کیا ہے ۔ اسرائیل کے ’’آئی ۲۴؍ نیوز‘‘ کے مطابق غزہ کے شہریوں کو شام میں ترکی کی سرحد کے قریب واقع ان خیمے کی بستیوں میں منتقل کیا جاسکتاہے جو شام کی خانہ جنگی کے دوران شامی شہریوں کو ترکی میں داخل ہونےسے روکنے کیلئے ترک سرحد کے قریب آباد کی گئی تھی۔ ’’آئی ۲۴؍ نیوز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق اس کیلئے شام کے شہر الباب اور اخترین کے درمیان ترک سرحد کے قریب اور اعزاز شہر کے مشرق میں واقع خیمہ کی بستیوں کو اہل غزہ کیلئے تیار کیا جارہاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی ۳؍ روز قبل ۸؍ اپریل کو پھر ٹرمپ نے دہرایاتھا کہ غزہ کا مسئلہ اہل غزہ کو دیگر ممالک میں منتقل کرکے حل کیا جاسکتاہے۔ا نہوں نےدعویٰ کیاتھا کہ کئی ممالک غزہ کے شہریوں کو اپنے ہاں بسانے کیلئے تیار ہیں۔
منصوبے کو ترکی اور قطرکی تائید؟
دعویٰ کیا گیا ہے کہ غزہ فلسطینیوں کو شام کے شمال میں ترکی کی سرحد کے قریب خیمہ بستیوں میں زبردستی بسانے کی تیاریوں کو ترکی اور قطر کی تائید حاصل ہے۔ ’’آئی ۲۴؍ نیوز‘‘ نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’شمالی شام میں ترک سرحد کے قریب قائم خیموں کی ۲؍ بڑی بستیوں کو دوبارہ تیار کیا جارہاہے تاکہ وہاں غزہ کے ہزاروں شہریوں کو ترکی اور قطر کے تعاون سے آباد کیا جاسکے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق ان میں سے خیموں پر مشتمل ایک کیمپ الباب اور اخترین شہر کے درمیان میں جبکہ دوسرا کیمپ اعزاز کے مشرق میں واقع ہے۔ چونکہ شام میں استحکام لوٹ رہاہے،اس لئے خانہ جنگی کے دوران بے گھر اور نقل مکانی پر مجبور ہونےکی وجہ سے ان کیمپوں میں آباد ہونےوالے افراد اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ ایسے میں قطر اور ترکی یہاں غزہ کے شہریوں کو آباد کرنے کیلئے شامی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ شام کے ذرائع کے مطابق غزہ کے شہریوں کی جبراً منتقلی کے بعد مذکورہ خیموں میں انہیں آباد کرنے کے منصوبے کے نفاذ کی ذمہ داری ترکی کی دو تنظیموں ’’آواز‘‘اور ’’آئی ایچ ایچ‘‘ کو دی گئی ہے ۔’’آئی ۲۴؍ نیوز‘‘ نے جب دونوں تنظیموں سے منصوبے کی تفصیل جاننے کیلئے رابطہ کیا تو انہوں نے منصوبہ کی تردید کی نہ کوئی جواب دیا۔
یہ بھی پڑھئے: ایپل کا ٹیرف سے بچنے کا انوکھا منصوبہ
جبراً منتقلی سے شام کا کیا فائدہ؟
دعویٰ ہے کہ شام میں فلسطینی شہریوں کی منتقلی امریکہ اور دمشق کے درمیان ایک وسیع تر سمجھوتے کا حصہ ہے جس کے تحت امریکہ نہ صرف شام کی نئی حکومت کو تسلیم کرلے گا بلکہ شام پر بشارالاسد کے دور میں عائد کی گئی پابندیاں بھی ہٹا لی جائیں گی۔ بہرحال کسی بھی سفارتی ذرائع نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل اسرائیل اور امریکہ فلسطینیوں کو شام میں بسانے کا منصوبہ پیش کر چکے ہیں۔امریکی میڈیا نے بھی خبر دی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل غزہ کے شہریوں کو شام میں آباد کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
شام، ترکی اور قطر خاموش
غزہ کے بہادر مگر مظلوم شہریوںکو جبراً شام منتقل کرنے سے متعلق صہیونی ذرائع ابلاغ میں آنےوالی ان رپورٹوں پر حیرت انگیز طو رپر شام، ترکی اور قطر نے خاموشی اختیار کی ہے۔ کسی بھی ملک نے اس کی تردید یا تصدیق سے گریز کیا ہے۔ ا لبتہ ۱۷؍ مارچ کو اسرائیلی اخبار’’ٹائمز آف اسرائیل‘‘ نے بھی یہ خبر شائع کی تھی کہ تل ابیب اور واشنگٹن غزہ کے لوگوں کو شام منتقل کرنے پر غور کررہے ہیں اورا س ضمن میں ایک ثالث کے ذریعہ دمشق سے رابطہ کیا گیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اہل غزہ کو غزہ سے بے دخل کرنے کے واشنگٹن کے ناقابل عمل اور ظالمانہ منصوبے کی عرب ممالک نے ہی پُر زور مخالفت نہیں کی ہے بلکہ فرانس اور جرمی سمیت امریکہ کے کئی اتحادیوں نےبھی کھل کر ٹرمپ کے اوٹ پٹانگ منصوبے کی مذمت کی ہے۔