Updated: June 14, 2024, 10:35 PM IST
| New Delhi
دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے جمعہ کو مصنفہ اروندھتی رائے اور کشمیر کی سینٹرل یونیورسٹی کے سابق پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف ۲۰۱۰ء میں مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریریں کرنے کے الزام میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری دی۔
اروندھتی رائے۔ تصویر: ایکس
دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے جمعہ کو مصنفہ اروندھتی رائے اور کشمیر کی سینٹرل یونیورسٹی کے سابق پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف ۲۰۱۰ءمیں مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریریں کرنے کے الزام میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری دی۔ پی ٹی آئی نےراج نواس کے نامعلوم اہلکارکا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی کہ اکتوبر میں، سکسینہ نے تعزیرات ہند کی تین دفعہ کے تحت رائے اور حسین کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دی تھی۔ان سیکشنز کا تعلق ہے’’مذہب، نسل، مقام پیدائش وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا، اور ہم آہنگی کومتاثر کرنے کیلئے متعصبانہ کام کرنا" (دفعہ ۱۵۳؍ اے) "تعزیرات، قومی یکجہتی کے لیے متضاد دعوے" ( دفعہ ۱۵۳؍ بی )اور "امن کی خلاف ورزی پر اکسانے کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین کرنا‘‘ (سیکشن ۵۰۵؍ )شامل ہے۔اس منظوری کےبعد رائےاورحسین کےخلافنئی دہلی میں میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت میں ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ درج کی گئی۔
یہ بھی پڑھئے: مہایوتی کا مستقبل خطرے میں، ہر حلیف کا علاحدہ ’سُر‘
رائے اور حسین کے خلاف ۲۸؍اکتوبر۲۰۱۰ءکو کشمیر کے ایک سماجی کارکن جس کی شناخت سشیل پنڈت کے طور پر کی گئی ہے کی طرف سےکی گئی شکایت کی بنیاد پرمقدمہ درج کیا گیا تھا۔پنڈت نےالزام لگایا تھا کہ مختلف مقررین نے۲۱؍اکتوبر ۲۰۱۰ءکو سیاسی قیدیوں کی رہائی کی کمیٹی کی طرف سے’’آزادی - واحد راستہ ‘‘کے بینر تلے منعقدہ ایک کانفرنس میں اشتعال انگیز تقاریر کیں۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں زیر بحث مسائل ’’کشمیر کی ہندوستان سے علیحدگی ‘‘سے متعلق ہیں،جو عوامی امن اور ہم آہنگی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ دی وائر کے مطابق پنڈت کا دعویٰ ہے کہ،رائے نےکہا، ’’کشمیر کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا اور ہندوستان کی مسلح افواج نے اس پر زبردستی قبضہ کیا تھا اورریاست جموں و کشمیر کی ہندوستان سے آزادی کیلئےہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔‘‘اس شکایت میں کشمیری علیحدگی پسند لیڈرسید علی شاہ گیلانی اوردہلی یونیورسٹی کے لیکچرار سید عبدالرحمن گیلانی کا نام بھی لیا گیا تھا،جو دونوں فوت ہو چکے ہیں۔