آر ٹی آئی کے ذریعے انکشاف۔ دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ اتھاریٹی نے یہ زمینیں الگ الگ علاقوں میں کلکٹر، ریاستی حکومت، بی ایم سی اور مرکزی حکومت سے مانگی ہیں۔
EPAPER
Updated: July 15, 2024, 2:17 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Dharavi
آر ٹی آئی کے ذریعے انکشاف۔ دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ اتھاریٹی نے یہ زمینیں الگ الگ علاقوں میں کلکٹر، ریاستی حکومت، بی ایم سی اور مرکزی حکومت سے مانگی ہیں۔
یہاں غیرقانونی قرار دیئے جانے والے مکینوں کی باز آبادکاری اور کرایے پر سستے مکانات دینے کے نام پر دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ اتھاریٹی نے الگ الگ مقامات پر ۲؍ ہزار ایکڑ سے زائد زمینوں کا مطالبہ کیا ہے۔ ’دھاراوی بچاؤ آندولن‘ کے کنوینر سنجے بھالے راؤ نے آر ٹی آئی کے ذریعے معلوم کیا تو یہ چونکانے والا انکشاف سامنے آیا کہ یہ زمینیں کلکٹر، بی ایم سی، ریاستی اور مرکزی حکومتوں سے مانگی گئی ہیں ۔ ایسے میں بھالے راؤ کا کہنا ہے کہ کیا اڈانی کے ذریعے پوری ممبئی کی زمین ہڑپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے خلاف شدت سے عوامی بیداری مہم چلانے کا عہد کیا گیا ہے۔ دھاراوی باز آبادکاری پروجیکٹ کے حوالے سے آر ٹی آئی آفیسر پی ایچ موٹکٹے کے ذریعے ان زمینوں کے تعلق سے یہ معلومات فراہم کرائی گئی ہے۔
یہ زمینات کہاں ہیں ؟
یہ زمینیں کرلا ڈیری، دہیسر زکات ناکہ، مانخورد زکات ناکہ، ملنڈ زکات ناکہ، بی ایم سی کی زمین، اکسا میں کلکٹر کی زمین، مالونی میں کلکٹر کی زمین، سائن- باندرہ لنک روڈ ٹی جنکشن کلکٹر کی زمین، سائن -باندرہ لنک روڈ او این جی سی اسٹاف کوارٹرز، بیسٹ ملازمین کالونی دھاراوی، دھاراوی میں بی ایم سی کی۱۳۸؍ ایکٹر زمین، ایچ ڈی آئی ایل ٹینا منٹس کرلا کلکٹر کی زمین، ایم ایم آر ڈی اے کی زمین، کاسٹنگ یارڈ باندرہ کرلا کمپلیکس، کانجور مارگ، ملنڈ، بھانڈوپ اور ماٹونگا میں نمک کی کھیتی کی زمینیں اور دیونار میں کلکٹر اور بی ایم سی کے زمینیں شامل ہیں ۔ اس میں تقریبا ً ایک ہزار ایکڑ زمینوں کا ایریا درج کیا گیا ہے، باقی زمینوں کے رقبہ والے کالم میں `’معلومات نہیں ہے‘ درج کر دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:بھیونڈی: شدید بارش سےعام زندگی متاثر، نشیبی علاقے زیرآب
اس تعلق سے ’اڈانی ہٹاؤ دھاراوی بچاؤ آندولن‘ کے کنوینر نےکہا کہ جب ہم نے دیگر طریقوں سے معلومات حاصل کی تو اندازہ ہوا کہ `’معلومات نہیں ہے‘ کے حوالے سے قطعہ اراضی کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دھاراوی واسیوں کی باز آبادکاری کے نام پر آخر یہ قیمتی زمینیں ہتھیانے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے اور دھاراوی میں رہنے والوں کے ساتھ قانونی اور غیر قانونی کے نام پر کھیل کیوں کھیلا جارہا ہے ؟ انہوں نے الزام لگاتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ دھاراوی میں سوا تا ڈیڑھ لاکھ جھوپڑے ہیں ، ان کی باز آبادکاری کے لئے کتنی زمینیں درکار ہوں گی؟ جبکہ خود دھاراوی کی مجموعی طور پر ۶۰۰؍ ایکڑ زمین ہے۔ اتنے بڑے رقبے میں ایک سے زائد دھاراوی کو بنایا اور یہاں رہنے والوں میں سے کسی ایک کو باہر بھیجے بغیر بسایا جاسکتا ہے لیکن اڈانی کا منصوبہ کچھ اور ہی ہے۔ انہیں یہاں دوسرا بی کے سی بنا کر اعلی درجے کی ہوٹلیں، مارکیٹ اور دیگر چیزیں قائم کرنی ہیں۔ اس منصوبے میں مبینہ طور پر ریاستی حکومت اور اس کے کارندے شریک ہیں ۔
’’ابھی تک کی معلومات آدھی ادھوری تھی‘‘
سنجے بھالے راؤ نے کہا کہ آر ٹی آئی کے ذریعے جو کچھ معلومات حاصل ہوئی ہے، اس سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ ابھی تک ہم لوگوں کو جتنی معلومات تھی، وہ آدھی ادھوری تھی، اتنے بڑے پیمانے پر گڑبڑ کا اندازہ نہیں تھا۔ اب اس کے حساب سے تیاری کی جائے گی اور آندولن میں مزید شدت لائی جائے گی۔ آندولن میں شامل تمام جماعتوں، مقامی تاجر اسوسی ایشنوں کے نمائندے اور سوسائٹیوں کے ذمہ داران یہ طے کر چکے ہیں کہ نہ تو کوئی دھاراوی واسی باہر جائے گا اور نہ ہی قانونی اور غیر قانونی کا دھاراوی ری ڈیولپمنٹ کا منصوبہ کامیاب ہونے دیا جائے گا۔ انہی بنیادوں پر کانگریس کے سینئر لیڈر پرتھوی راج چوہان نے ایوان اسمبلی میں دھاراوی ڈیولپمنٹ کے تعلق سے وہائٹ پیپر پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا تا کہ معلوم ہوسکے کہ دھاراوی کے تعلق سے حکومت کا منصوبہ کیا ہے۔