ڈنمارک نے اپنے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ’’فلسطین اسکوائر‘‘ تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد حکومت کو عبرانی زبان کئی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں، اس کے باوجود حکام نے فلسطین اسکوائر بنانے کی منظوری دی ہے۔
EPAPER
Updated: March 08, 2025, 10:02 PM IST | Copenhagen
ڈنمارک نے اپنے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ’’فلسطین اسکوائر‘‘ تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد حکومت کو عبرانی زبان کئی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں، اس کے باوجود حکام نے فلسطین اسکوائر بنانے کی منظوری دی ہے۔
کوپن ہیگن کی سٹی کونسل نے برسوں کی بحث کے بعد ڈنمارک کے دارالحکومت میں ایک مقام کا نام ’’فلسطین اسکوائر‘‘ رکھنے کی منظوری دی ہے۔ کونسل کے ۵۵؍ ارکان میں سے ۲۹؍ نے (اکثریت) نے اس کے حق میں ووٹ دیا، اور یہ نام باضابطہ طور پر یکم اپریل سے نافذ العمل ہوگا۔ اس تجویز کی ابتدائی طور پر اگست ۲۰۲۳ء میں بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد نے حمایت کی تھی۔ تاہم، غزہ میں اسرائیلی جنگ کی وجہ سے یہ تاخیر کا شکار ہو گئی تھی۔ ووٹ سے پہلے ہزاروں ای میلز نے شہر کے عہدیداروں کے ان باکس کو بھر دیا تھا، جسے کچھ لوگوں نے فیصلے پر اثر انداز ہونے کی ایک منظم کوشش قرار دیا۔ ای میلز نے ان پر زور دیا کہ وہ اس تجویز کو مسترد کردیں، جس میں ۵۵؍ میں سے کم از کم ۴۹؍ نمائندوں کو نشانہ بنایا گیا۔
Hundreds of people took to the streets in Copenhagen, Denmark, to stand against Israel`s genocide in Gaza. pic.twitter.com/cOKAKgS7pM
— PALESTINE ONLINE 🇵🇸 (@OnlinePalEng) February 24, 2025
کنزرویٹو پیپلز پارٹی کے مورٹن میلچیئرز نے اسے بڑے پیمانے پر حملہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے ڈی آر نیوز کو بتایا کہ ’’مجھے اس کی مخالفت میں ایک گھنٹے میں ۸۳۰؍ ای میلز موصول ہوئے۔ سٹی آف کوپن ہیگن کے سسٹم نے اس عرصے میں ۱۲؍ ہزار ۲۵۳؍ ای میلز رجسٹر کئے جن سے سسٹم میں زبردست خلل پڑا تھا۔‘‘ ریڈیکل لبرلز کے کرسٹوفر روہل اور ریڈگرین الائنس کے فریڈرک کرونبرگ سمیت دیگر کونسلرز نے بھی ان باکسز کی اطلاع دی جو ایک جیسے پیغامات سے بھرے ہوئے تھے، جن میں سے بہت سے غیر ملکی پتوں سے تھے۔ روہل نے اندازہ لگایا کہ انہیں ۶۵۰؍ ای میلز موصول ہوئے ہیں جبکہ کرونبرگ کو ۹۰۰؍ سے زائد۔
یہ بھی پڑھئے: رمضان: مسجد اقصیٰ میں ۹۰؍ ہزار فلسطینیوں نے نمازِ جمعہ ادا کی
روہل نے کہا کہ ’’شہریوں کی مصروفیت اور سیاسی گفتگو کو غرق کرنے کی منظم کوشش میں فرق ہے۔ مخالفت والے پیغامات نے ہمارا موقف تبدیل نہیں کیا۔‘‘ کرونبرگ نے مداخلت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس سے سیاسی کام میں خلل پڑتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ہماری فیصلہ سازی کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔‘‘ اگرچہ حقیقت اب تک واضح نہیں ہے۔ حکام نے عبرانی اور امریکی ناموں والے ای میلز کو نوٹ کیا ہے، جو ممکنہ بیرونی اثر و رسوخ کا مشورہ دیتے ہیں۔ ایسے ای میلز کے باوجود فلسطین اسکوائر تجویز کے حامی، ووٹنگ سے پہلے پرعزم رہے۔