سینا بنام سینا مقابلہ میں شندے گروپ نے ۳۶؍ اور اُدھو گروپ نے صرف ۱۴؍ سیٹیں جیتیں، اجیت پوار نے شرد پوار کی پارٹی کو ۲۹؍ سیٹوں پر ہرایا جبکہ سینئر پوار کی پارٹی صرف ۶؍ سیٹوں پر ہرانے میں کامیاب ہوسکی۔
EPAPER
Updated: November 25, 2024, 10:38 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai
سینا بنام سینا مقابلہ میں شندے گروپ نے ۳۶؍ اور اُدھو گروپ نے صرف ۱۴؍ سیٹیں جیتیں، اجیت پوار نے شرد پوار کی پارٹی کو ۲۹؍ سیٹوں پر ہرایا جبکہ سینئر پوار کی پارٹی صرف ۶؍ سیٹوں پر ہرانے میں کامیاب ہوسکی۔
اسمبلی الیکشن میں شیوسینا بنام شیوسینا اور این سی پی بنام این سی پی لڑائی میں شندے اور اجیت پوار گروپ کی غیر معمولی کامیابی نے اس بحث کو پھر گرم کردیا ہے کہ اصل شیوسینا اور اصل این سی پی کس کے پاس ہے۔ مبصرین کا ایک بڑا طبقہ یہ فیصلہ سنا رہاہے کہ اصل پارٹی کی لڑائی بھی شندے اور اجیت پوار جیت گئے ہیں۔
شیوسینا میں پھوٹ اور ایکناتھ شندے گروپ کے علاحدہ ہونے کے بعد سے اُدھو ٹھاکرے یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ایکناتھ شندے ان کی پارٹی کا نام اور انتخابی نشان چرا لے گئے ہیں اور ان کے والد (بال ٹھاکرے) کی تصویر استعمال کررہے ہیں۔ وہ یہ للکارتے رہے ہیں کہ انتخابات میں عوام اس کا جواب دیدیں گے۔ لوک سبھا الیکشن میں شیوسینا (اُدھو) کی اچھی کارکردگی نے ان کے ان دعوؤں کو تقویت بھی بخشی مگر اصل امتحان اسمبلی الیکشن میں ہونا تھا۔ پارٹی میں تقسیم کے بعد ہونےوالے اسمبلی الیکشن کے جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کے بعد ٹھاکرے خاندان کے سامنے سیاسی بقا کی جنگ کا مسئلہ پیدا ہوگیاہے۔
ایکناتھ شندے کی شیوسینا جہاں ۵۷؍ سیٹیں جیت کر اسمبلی میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے جبکہ اُدھو ٹھاکرے کی شیوسینا ۱۰؍ سیٹوں پر سمٹ گئی ہے۔ جن سیٹوں پر شیوسینا بنام شیوسینا مقابلہ تھا ان میں سے ۳۶؍ سیٹیں شندے گروپ اور ۱۴؍ سیٹیں اُدھو خیمہ نے جیتیں۔ ۵۱؍ سیٹوں پر دونوں سینا آمنے سامنے تھیں۔ ایک سیٹ کسی اور پارٹی نے جیتی۔ اس طرح شندے گروپ نے عوام میں اپنی قبولیت کا لوہا منوالیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:اڈانی کو امریکی عدالت کا سمن، ہندوستانی سپریم کورٹ میں بھی پٹیشن
مہاراشٹر کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار پرکاش آکولکر کے مطابق’’جو نتائج ہیں،ان سے ظاہر ہے کہ اُدھو ٹھاکرے کیلئے بچی کھچی شیوسینا کو ساتھ رکھنا بہت مشکل ہوگا۔‘‘ شیوسینا (شندے ) نے ۸۱؍ سیٹوں پر الیکشن لڑ کر ۵۷؍ سیٹیں جیت لیں جبکہ شیوسینا (اُدھو) نے ۹۵؍ سیٹوں پر الیکشن لڑا مگر ۱۰؍ سے زائد سیٹیں نہیں جیت سکی۔‘‘ اہم بات یہ ہے کہ شیوسینا (اُدھو) نےجو سیٹیں جیتی ہیں ان میں مسلم ووٹرس کا اہم رول ہے جنہوں نے مہا وکاس اگھاڑی کا حصہ ہونے کی وجہ سے بلاتردد اس کے امیدواروں کے حق میں پولنگ کی۔ بائیکلہ اور باندرہ ایسٹ کی سیٹیں اس کی مثال ہیں۔ ایسی شرمناک ہار سے ابھرنے میں اُدھو ٹھاکرے کو وقت لگے گا، اس دوران ان کی پارٹی کے انتخابی نشان پر منتخب ہونےو الے گنے چنے اراکین اسمبلی کے پالا بدلنے کا خطرہ بھی منڈلاتا رہے گا۔ دوسری طرف انتخابی نتائج نے ایکناتھ شندے کے حوصلے بلند کردیئے ہیں۔ ان کے مطابق ’’نتائج نے بتادیا ہے کہ اصل شیوسینا کس کی ہے اور کون بالا صاحب ٹھاکرے کی وراثت کو آگے بڑھا رہا ہے۔‘‘
اُدھر این سی پی بنام این سی پی جنگ میں بھتیجے اجیت پوار نے چچا شرد پوار پر واضح سبقت حاصل کرلی ہے جس کا اعتراف اتوار کو خود این سی پی کے بانی نےبھی کیا۔ اس موضوع پر کہ کیا اصل این سی پی اجیت پوار کی ہی ہے، شرد پوار کا کہناتھا کہ’’یہ سب جانتے ہیں کہ این سی پی کو قائم کرنے والا میں ہوں۔‘‘ بہرحال اسمبلی الیکشن میں جن سیٹوں پر این سی پی بنام این سی پی مقابلہ تھا ان میں سے صرف ۶؍ سیٹیں ہی شرد پوار کا خیمہ جیت سکا،بقیہ ۲۹؍ پر اجیت پوار کے گروپ نے قبضہ کیا۔ پوار پریوار کے گڑھ بارامتی سے اجیت پوار کی زائد از ایک لاکھ ووٹوں سے جیت بھی پارٹی پر اجیت پوار کی پکڑ کو واضح کرتی ہے۔ شرد پوار جو انتخابی سیاست سے علاحدگی کا اعلان کرچکے ہیں، کیلئے آگے بڑے چیلنج موجود ہیں۔