جے پی مورگن کا کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ٹیرف کے بعد عالمی معاشی کساد بازاری کا۶۰؍ فیصد امکان ہے۔ فرم نے مزید کہا کہ امریکی متزلزل پالیسیاں، اس سال عالمی مالیاتی منظرنامےکیلئےسب سے بڑا خطرہ ہیں۔
EPAPER
Updated: April 06, 2025, 10:38 PM IST | Washington
جے پی مورگن کا کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ٹیرف کے بعد عالمی معاشی کساد بازاری کا۶۰؍ فیصد امکان ہے۔ فرم نے مزید کہا کہ امریکی متزلزل پالیسیاں، اس سال عالمی مالیاتی منظرنامےکیلئےسب سے بڑا خطرہ ہیں۔
بزنس انسائیڈر کی رپورٹ کے مطابق مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی فرم جے پی مورگن نے جمعرات کو عالمی معاشی کساد بازاری کے امکانات کو سال کے آخر تک۴۰؍ فیصد سے بڑھا کر۶۰؍ فیصد کر دیا، یہ ردعمل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے نئے ٹیرف کے اعلان کے بعد آیا جو بدھ کو سامنے آیا تھا۔فرم کے چیف عالمی ماہر معاشیات بروس کاسمین نے کلائنٹسکیلئے شائع کردہ ایک تحقیقی نوٹ میں کہاکہ ’’امریکی خلل ڈالنے والی پالیسیوں کو پورے سال عالمی منظرنامےکیلئے سب سے بڑے خطرے کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ تازہ ترین خبروں نے ہمارے خدشات کو تقویت دی ہے کیونکہ امریکی تجارتی پالیسی ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ کاروبار کیلئے غیر موافق ہو گئی ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: سابق امریکی صدر باراک اوباما کی اختلاف رائے پر ٹرمپ کی پابندیوں پر تنقید
ٹرمپ نے بدھ کو ملک میں درآمد کیے جانے والے بیشتر سامان پر کم از کم۱۰؍ فیصد ٹیرف کا اعلان کیا، جو سنیچر سے نافذ العمل ہوگا۔ امریکی حکومت نے تمام غیر ملکی ساختہ گاڑیوں پر۲۵؍ فیصد ٹیرف بھی عائد کیا، جو ۳؍اپریل سے نافذ ہوا۔اس کے علاوہ، واشنگٹن نے کہا کہ وہ درجنوں ممالک پر جوابی ٹیرف عائد کر رہا ہے، جن میں ہندوستان پر۲۶؍ فیصد ’’رعایتی‘‘ ٹیکس بھی شامل ہے۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق سرمایہ کاری خدمات کی کمپنی بارکلے نے جمعرات کو پیش گوئی کی کہ۲۰۲۵ء میں ریاستہائے متحدہ میں مجموعی ملکی پیداوار میں کمی ہوگی، جو کساد بازاری کی نشاندہی کرتی ہے۔اگلے دن ’’سٹی ‘‘ کے ماہرین معاشیات نے بھی اس سال کی ترقی کی پیش گوئی کوصفر اعشاریہ ایک فیصد تک کم کر دیا، جبکہ یونیئن بینک آف سوئٹزرلینڈ نے اپنی پیش گوئی کوصفر اعشاریہ ۴؍ فیصد تک کم کیا،۔ امریکی بازاروں نے جمعرات کو کورونا کی وبا کے بعد اپنا بدترین دن دیکھا، جس میں ایکوئٹیز کی قدر میں ۳؍ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ ٹیرف نے ایک وسیع تر تجارتی جنگ کے خدشات کو جنم دیا ہے جو عالمی معیشت کو متاثر کر سکتی ہے اور مہنگائی کو بڑھا سکتی ہے۔