ڈینش رفیوجی کاؤنسل (ڈی آر سی) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’۲۰۲۶ء کے آخر تک عالمی سطح پربے گھر ہونےو الے افراد کی تعداد ۷ء۶؍ملین ہوجائے گی۔‘‘
EPAPER
Updated: March 15, 2025, 11:57 AM IST | New Delhi
ڈینش رفیوجی کاؤنسل (ڈی آر سی) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’۲۰۲۶ء کے آخر تک عالمی سطح پربے گھر ہونےو الے افراد کی تعداد ۷ء۶؍ملین ہوجائے گی۔‘‘
ڈینش رفیوجی کاؤنسل نے (ڈی آر سی) کی رپورٹ کے مطابق ’’۲۰۲۶ء کے آخر تک عالمی سطح پربے گھر ہونےو الے افراد کی تعداد ۷ء۶؍ ملین ہوجائے گی۔ یاد رہے کہ بے گھر ہونےوالے افراد کی تعداد میں اضافہ اس وقت سامنے آیا ہے جب عطیہ کرنےو الے کلیدی ممالک، جن میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی وغیرہ شامل ہیں، نے انسانی امدادواپس لے لی ہے جس کی وجہ سے کروڑوں افراد مشکل میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر فی الحال ۶ء۱۲۲؍ ملین افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ ڈی آر سی گلوبل ڈسپلیٹ مینٹ فار کاسٹ نے ۲۰۲۵ء ہی میں ۲ء۴؍ ملین افراد کے بے گھر ہونے کی پیش گوئی کی ہے جو ۲۰۲۱ء کے اعدادوشمار سے زیادہیں۔‘‘
Today we launch our latest Forecast Report on global displacement. And the findings are a warning: More than 6.7 million people are going to be displaced in the coming two year, on top of the 122 million people displaced globally already.
— Danish Refugee Council (@DRC_ngo) March 14, 2025
👉 https://t.co/ajSMbDJS0E pic.twitter.com/auy9XT82W6
رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۶ء میں ، ۲۰۲۵ء کے مقابلے میں مزید ۵ء۲؍ملین افراد کے بے گھر ہونے کا خطرہ ہے۔ ڈی آر سی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بے گھر ہونےو الےا فراد کا تہائی حصہ سوڈان سے ہوگاجہاں خانہ جنگی کے نتیجے میں ۶ء۱۲؍ملین افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ بعد ازیں میانمار میں، جو بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کا سامنا کر رہا ہے، ۲۰۲۶ءکے آخر تک ۴ء۱؍ملین افراد بے گھر ہوسکتے ہیں۔ ڈینش رفیوجی کاؤنسل کی سیکریٹری شارلیٹ سلینٹ نے کہا کہ ’’یہ صرف اعدادوشمار نہیں ہیں ، بلکہ خاندانوں کو ان کے گھر سے بھاگنے پر مجبور کیاگیا ہے جبکہ ان کے پاس نہ پانی ہے، نہ غذا اورنہ ہی کوئی جائے پناہ۔‘‘
Women and girls make up 54% of forcibly displaced people in West and Central Africa. They remain highly vulnerable to violence and exploitation, especially in emergencies.
— Abdouraouf Gnon-Kond (@GnonKond) March 8, 2025
My colleague Mame explains how @UNHCRWestAfrica is responding. #IWD2025 pic.twitter.com/LqovBEkAMT
رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ دنیا کے ۲۷؍ ممالک میں عالمی سطح پر بے گھر ہونےو الے افراد کا ایک تہائی حصہ ہے جبکہ جمہوریہ کانگو، افغانستان، یمن، شام،وینزویلا اور دیگر مماملک میں بھی جنگ ، موسمیاتی تبدیلی، سماجی معاشی بحران اور دیگر مسائل کے سبب بے گھر ہونےو الے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ بے گھر افرادکی تعدادکا تقریباً ۷۰؍ فیصد اپنے ملک میں ہی بے گھر ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: پیدائشی شہریت پر پابندیوں کو جزوی طور پرنافذ کیا جائے: ٹرمپ کی عدالت سے درخواست
دیگر ممالک، خاص طور پر امریکہ سے، امداد کی فراہمی روکنے کے سبب بے گھر ہونے کا بحران ابتر ہوگیا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے یو ایس اے آئی ڈی کے ساتھ ۸۳؍ فیصد انسانی پروگراموں کو کم کرنے کے بعد ڈی آر سی جیسی تنظیموں کےساتھ ۲۰؍سے زائد معاہدے ختم ہوگئے ہیںجس کےنتیجے میںان اداروں کے اقدامات، جیسے جنوبی سوڈان میں نوعمر لڑکیوں کی حفاظت کے پروگرام،جنہیں بچپن کی شادی کا نشانہ بنائے جانے کا خطرہ ہے،اور ایتھوپیا میں بے گھر خواتین کو شیلٹر فراہم کرنا وغیرہ ختم ہوچکے ہیں۔ شارلیٹ سلینٹ نے مزید کہا کہ’’کروڑوںافراد بھکمری اور بے گھر ہونے کے بحران سے گزررہے ہیں اور انہیں ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ امیر ممالک نے اپنی امدادروک دی ہے۔ یہ کمزور لوگوںکے ساتھ دھوکہ ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ۲۰۲۱ءسے ہندوستان میں سائبر فراڈ کی ۳۸؍لاکھ سے زیادہ شکایات: مرکز
ڈی آر سی نے متنبہ کیا ہے کہ ’’ان مشکل حالات میں عالمی تعاون کی واپسی کے سبب حالات مزید ابتر ہوچکے ہیں۔ ہم ایک عظیم تباہی کا سامنا کر رہے ہیںجہاں بے گھر ہونےو الے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، ضروریا ت زندگی بڑھ رہی ہے اور فنڈنگ ختم کر دی گئی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’بڑےبڑے عطیہ دہندگان اپنے فرائض سے مفرور ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے کروڑوں افراد مشکلات میں زندگی بسرکررہے ہیں۔ یہ بحران سے بھی زیادہ ہے۔یہ ہماری اخلاقی ناکامی ہے۔‘‘اس درمیان حماس کے ترجمان حازم قاسم نے امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ۲؍ ملین فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کی تجویز کے تعلق سے واضح پسپائی کا خیر مقدم کیا ہے۔‘‘حماس کے اہلکار کا یہ بیان تب سامنے آیا ہے جب ڈونالڈ ٹرمپ نے بدھ کو یہ کہا تھا کہ ’’کوئی بھی کسی کو غزہ سے نہیں نکال رہا ہے۔‘‘