انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر مودی کے خلاف پٹیشن پر دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک آزار ادارہ ہے اور ہم اس کے ایک ایک قدم پر نظر نہیں رکھ سکتے۔ اس معاملے کی اگلی سماعت ۱۳؍ مئی کو ہوگی۔
EPAPER
Updated: May 11, 2024, 3:02 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi
انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر مودی کے خلاف پٹیشن پر دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک آزار ادارہ ہے اور ہم اس کے ایک ایک قدم پر نظر نہیں رکھ سکتے۔ اس معاملے کی اگلی سماعت ۱۳؍ مئی کو ہوگی۔
دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو فیصلہ سنایا کہ وہ الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کو مائیکرو مینج (نچلی سطح پر الیکشن کمیشن کے ایک ایک قدم پر نظر رکھنا) نہیں کر سکتا۔ لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران نفرت انگیز تقاریر کرنے پر وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کے جواب میں جسٹس سچن دتہ نے یہ بات کہی۔ بنچ نے کہا کہ ’’کون فیصلہ کرے گا کہ مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوئی ہے؟ ای سی آئی ایک آئینی ادارہ ہے، ہم اسے مائیکرو مینج نہیں کر سکتے۔‘‘
واضح رہے کہ یہ عرضی شاہین عبداللہ، امیتابھ پانڈے اور دیب مکھرجی نے دائر کی ہے۔ بار اینڈ بنچ کے مطابق اٹارنی نظام پاشا نے عدالت میں درخواست گزاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ ہر کسی کیلئے یکساں کارروائی کی ضرورت ہے اور ای سی آئی کے اقدامات نفرت انگیز تقریر کرنے والے کی شناخت پر منحصر نہیں ہونے چاہئیں۔ ای سی آئی کی جانب سے اٹارنی سوروچی سوری نے کہا کہ کمیشن نے موصول ہونے والی شکایات پر نوٹس بھیج دیا ہے اور وہ ۱۵؍ مئی تک حکمراں جماعت کے جواب کا انتظار کر رہا ہے، جس کے بعد قانونی کارروائی کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں جنگ بندی مذاکرات کی تجاویز میں ترمیم پر غور کیلئے وقفہ
تاہم، عدالت نے پاشا سے متعلقہ دستاویزات کو ریکارڈ پر لانے کو کہا اور پیر ۱۳؍ مئی کو اگلی سماعت مقرر کی ہے۔درخواست میں وزیر اعظم مودی کی راجستھان کے بانسواڑہ میں مسلم مخالف نفرت انگیز تقریر کا حوالہ دیا گیا ہے، جہاں انہوں نے کہا تھا کہ کانگریس لوگوں کا پیسہ لے کر ان لوگوں کو دے گی جن کے ’’زیادہ بچے‘‘ ہیں اور ’’درانداز‘‘ ہیں۔ عرضی میں ساگر، مدھیہ پردیش میں مودی کی ۲۴؍ اپریل کی تقریر کا بھی حوالہ دیا گیا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ کانگریس نے مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نافذ کیا ہے۔ عرضی میں دعویٰ کیا گیا کہ ای سی آئی مختلف افراد کی جانب سے بہت سی شکایات کے باوجود مؤثر طریقے سے کام کرنے میں ناکام رہا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’ جواب دہندہ (ای سی آئی) کی جانب سے یہ بے عملی صریح طور پر من مانی، بدنیتی، ناقابلِ اجازت اور اس کے آئینی فرض کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ایم سی سی کو فضول قرار دینے کے مترادف ہے، جس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کے جذبے کو امیدواروں کی طرف سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ عرضی میں مزید کہا گیا ہے کہ جواب دہندہ کی جانب سے کوتاہی اور کمیشن نہ صرف آئین ہند کے آرٹیکل ۱۴، ۲۱؍ اور ۳۲۴؍ کی مکمل اور براہ راست خلاف ورزی ہے بلکہ یہ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ عام انتخابات میں بھی رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔‘‘
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ایم مودی کے خلاف ایسی کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے، اور ان کی تقریر سے متعلق نوٹس بی جے پی کے صدر کو بھی بھیجا گیا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ ای سی آئی نے کئی سیاستدانوں کو نوٹس جاری کیا ہے، بشمول کے چندر شیکھر راؤ ، آتشی، دلیپ گھوش، اور دیگر۔ درخواست میں بی جے پی کے صدر جے پی نڈا اور مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کی تقاریر کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور ان تمام لیڈروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے جنہوں نے نفرت انگیز تقاریر کی ہیں۔