اسرائیل نے قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کیلئے حماس کی تجویز پر اپنے تحفظات ثالثوں کے سامنے پیش کئے ہیں۔
EPAPER
Updated: May 10, 2024, 3:58 PM IST | Agency | Cairo
اسرائیل نے قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کیلئے حماس کی تجویز پر اپنے تحفظات ثالثوں کے سامنے پیش کئے ہیں۔
اگرچہ مصر نے اس بات کی تصدیق کی ہےکہ غزہ میں جنگ بندی تک پہنچنے کیلئے مذاکرات حماس اور اسرائیل کے وفود کے گزشتہ روز قاہرہ سے روانہ ہونے کے بعد جاری ہیں۔ تاہم اس نے یہ واضح نہیں کیا ہےکہ وہ کون سی رکاوٹیں تھیں جو دونوں وفود کی روانگی کا باعث بنیں۔ دریں اثناء حماس نے اعلان کیا ہے کہ گیند اب تل ابیب کے کورٹ میں ہے۔ اب اسرائیل کے سامنے پیش کی گئی نئی تجاویز اور ترامیم کے حوالے سے اسرائیلی جواب کا انتظار ہے۔ اس نئی تجویز پر مصری دارالحکومت میں گزشتہ دنوں سے بحث کی جا رہی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ حماس کی طرف سے پیش کی گئی ترمیم کا تعلق ابتدائی مرحلے میں جنگ بندی کی مدت سے ہے۔ ’سی این این‘ کے مطابق بات چیت سے واقف تین ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ حماس کی طرف سے گزشتہ منگل کو پیش کی گئی ترامیم میں شامل ہے کہ اسرائیل نے ۶؍ ہفتوں کے بجائے۱۲؍ ہفتوں کیلئے لڑائی کے ابتدائی خاتمے پر پیشگی رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس سے قاہرہ میں گزشتہ منگل کو حماس، اسرائیل، مصر اور قطر کے علاوہ امریکہ کے وفود کی شرکت کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
یہ بھی پڑھئے: رفح پراسرائیلی جارحیت میں۳۶؍ بچوں سمیت ۹۴؍افرادجاں بحق
۲؍امریکی عہدیداروں نے وضاحت کی کہ اس وقت بات چیت میں ’عارضی وقفہ‘ ہے۔
مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے اپنے امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن کے ساتھ فون پرگفتگو کرتے ہوئے مذاکرات کے فریقوں پر لچک دکھانے اور جنگ بندی تک پہنچنے کیلئے ضروری کوششیں جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔
’العربیہ‘ کی خبر کے مطابق یہ بات اس وقت سامنے آئی جب ایک سینئراسرائیلی اہلکارنے اعلان کیا کہ اسرائیل نے قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کیلئے حماس کی تجویز پر اپنے تحفظات ثالثوں کے سامنے پیش کئے ہیں۔ قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات میں معاہدے تک پہنچنے میں رکاوٹ بننے والی تجاویز کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
حماس نے جمعہ کو علی الصباح کہا کہ قاہرہ میں غزہ جنگ بندی مذاکرات میں شریک اس کا وفد قطر کیلئے روانہ ہو گیا۔ اب فیصلے کا انحصار مکمل طور پر اسرائیل کے جواب پر ہے۔ حماس نے دیگر فلسطینی گروپوں کو ایک پیغام میں کہاکہ ’’مذاکرات کرنے والا وفد قاہرہ سے دوحہ روانہ ہو گیا۔ عملاً قابض (اسرائیلی) حکومت نے ثالثین کی پیش کردہ تجویز مسترد کر دی اور اس پر کئی مرکزی مسائل کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے۔ ‘‘ حماس نے کہا کہ وہ اس تجویز پر قائم ہے۔ نتیجتاً فیصلہ اب مکمل طور پر قابض حکومت کے ہاتھ میں ہے۔
القاہرہ نیوز نے گزشتہ روز اطلاع دی کہ فریقین کے نمائندے ۲؍ روزہ مذاکرات کے بعد قاہرہ سے روانہ ہوگئے ہیں۔
اکیلے کھڑا ہونا پڑا تو اکیلے کھڑے ہوں گے: نیتن یاہو
کئی ماہ سے امریکی مشاورت، رہنمائی اور مکمل مدد کے ساتھ غزہ میں جنگ کرنے والے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے۸؍ویں ماہ میں رفح میں جنگی شروعات کرنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ ` اگر ہمیں اکیلے کھڑا ہونا پڑا تو ہم اکیلے کھڑے ہوجائیں گے۔ واضح رہے کہ ایک روز قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے سی این این ` کو انٹرویو میں اسرائیل کے رفح میں جنگی طریقہ کار پر قدرے عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ اس صورت میں اسرائیل کو کچھ اسلحے کی فراہمی روک سکتا ہے۔ اس پر سب سے پہلے اسرائیلی فوج کے ترجمان رئیر ایڈمرل ڈینئیل ہگاری نے ایک اسرائیلی ریڈیو پر رد عمل ظاہر کیا تھا اور اب نیتن یاہو نے جذباتی انداز میں تقریر کی ہے۔ مبصرین اسرائیل اور امریکہ کے درمیان اس صورتحال پر مختلف تبصرے کر رہے ہیں۔ ایک مشترک تبصرہ یہ جاری کیا گیاہے کہ ۸؍ ماہ سے جاری غزہ جنگ میں امریکہ نے جس قدر اسرائیل کی مدد کی ہے، اس سے لگتا رہاکہ یہ اسرائیل کی نہیں امریکہ کی اپنی جنگ ہے جس میں پورا یورپ اس کے ساتھ رہا ہے۔ اس لئے اب کچھ اسلحہ یا متعین قسم کے ` ان گائیڈڈ ` بموں کی فراہمی روکنے سے رفح میں اسرائیلی جنگ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اپریل میں ۱۳؍ارب ڈالر کی فوجی امداد کا امریکی پیکیج بھی اسی اسرائیل کی غزہ جنگ میں کام آتا رہے گا۔ البتہ امریکی صدر کو اپنی مشکل انتخابی مہم میں اور اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں اپنی اپنی ضرورت کیلئے ’فیس سیونگ‘ ` مل جائے گی کیونکہ جوبائیڈن کی مہم اسرائیل نواز پالیسی سے بھی بہت خطرے میں ہو سکتی ہے اور حماس کے اب تک مزاحمت کرنے پر اسرائیلی جنگی اہلیت پر سوال اٹھ چکے ہیں۔