گیٹ وے آف انڈیا کشتی حادثہ میں ڈوبنے والے متعدد افرادکی جان بچانے میں مجگائوں کے ۴۸؍سالہ بوٹ ماسٹر پائلٹ محمد عارف بامنے نے کلیدی رول ادا کیا تھا ۔انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر غرق ہونے والے کشتی کے مسافروں کی جان بچائی تھی ۔
EPAPER
Updated: December 21, 2024, 4:50 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
گیٹ وے آف انڈیا کشتی حادثہ میں ڈوبنے والے متعدد افرادکی جان بچانے میں مجگائوں کے ۴۸؍سالہ بوٹ ماسٹر پائلٹ محمد عارف بامنے نے کلیدی رول ادا کیا تھا ۔انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر غرق ہونے والے کشتی کے مسافروں کی جان بچائی تھی ۔
گیٹ وے آف انڈیا کشتی حادثہ میں ڈوبنے والے متعدد افرادکی جان بچانے میں مجگائوں کے ۴۸؍سالہ بوٹ ماسٹر پائلٹ محمد عارف بامنے نےکلیدی رول ادا کیا تھا ۔انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر غرق ہونے والے کشتی کے مسافروں کی جان بچائی تھی ۔ ان کے اس جرأتمندانہ کارہائے نمایاں کیلئے سوشل میڈیا پر انہیں مبارکباد پیش کرنے کا سلسلہ دراز ہے ۔ کئی سماجی تنظیموں نے ان کیلئے تہنیتی پروگرام منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ان کے موبائل فون پر مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھا ہے۔
محمد عارف نے انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’حادثہ انتہائی خوفناک تھا۔اگر وقت پر متاثرین کی مدد نہ کی جاتی تو ہلاک ہونے والوں کی تعداد اور زیادہ ہوتی۔ حادثے کے آدھے گھنٹہ بعد تک ریسکیو ٹیم جائے وقوعہ پر نہیں پہنچی تھی ۔ میں قریب ہی ایک پائلٹ بوٹ پر ڈیوٹی کر رہا تھا ۔میں نے فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ کر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مسافروں کو بچانے کی مہم شروع کی۔ مسافروں کے چیخنے چلانےکی آواز سے اطراف کا ماحول غمزدہ تھا۔ یکے بعد دیگرے مسافروں کو بچا کر ہم قریب کی ایک کشتی میں منتقل کر ر ہے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ پونے ۲؍ گھنٹے جاری رہا ہے ۔ اس دوران ہم نے درجنوں افراد کی جانیں بچائیں لیکن ایک ساڑھے ۳؍سال کی بچی کی جان بچانےکیلئے ہمیں بڑی مشقت کرنی پڑی ۔
یہ بھی پڑھئے: گیٹ وے حادثہ :عارف محمد۳۵؍ مسافروں کیلئے مسیحا ثابت ہوئے
محمد عارف کےمطابق ’’اس لڑکی کو بڑی تگ ودو کے بعد سمند ر سے نکالنے میں کامیابی ملی۔ اس کی حالت بڑی خراب تھی۔ وہ پوری طرح بے ہوش ہوگئی تھی۔ اسےدیکھ کر ایسا محسوس ہو رہاتھا کہ وہ زندہ نہیں بچے گی۔ اسے قریب کے بوٹ میں منتقل کرنے کے بعد ہم نے اسے اُلٹالٹا کر اس کے پیٹ میں جمع پانی نکالنے کی کوشش شروع کی۔ اس وقت اس کی آنکھ بند تھی۔۱۰؍ منٹ کی متواتر کوشش کے بعد اس نے دھیرے دھیرے آنکھ کھولی تو ہماری جان میں جان آئی ۔ اس کےپیٹ کا پورا پانی نکالنے کےبعد اس کی سانس رفتہ رفتہ بحال ہوئی ۔ ‘‘
محمد عارف کے بقول’’ اس پوری کارروائی کے دوران اس کےبرادران وطن والدین بلک بلک کر رو رہے تھے۔ وہ اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر نااُمید ہوگئے تھے لیکن اللہ کے فضل سے اس کی جان بچانے کی پوری کوشش کی گئی جس میں ہمیں کامیابی ملی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں محمد عارف نے بتایا کہ’’ جب ہم نے بچی کو اس کے والدین کے حوالے کیا تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تواُمید چھوڑ دی تھی لیکن جس جانفشانی سے آپ نے اس کی جان بچائی ، اس احسان کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔یہ کہہ کردونوں میرے پیروں کو چھونےکی کوشش کرنے لگے، لیکن میں نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا ۔ان سے صرف دعا کرنے کی درخواست کی۔ اللہ ہمارے اس عمل کوقبول فرمائے ۔‘‘