ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکہ سے ملک بدر کئے گئے جنوبی افریقہ کے سفر ابراہیم رسول اتوار کو اپنے ملک لوٹ آئے۔ کیپ ٹاؤن ایئرپورٹ پر ان کے حامیوں نے ان کا زبردست استقبال کیا۔
EPAPER
Updated: March 24, 2025, 4:00 PM IST | Cape Town
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکہ سے ملک بدر کئے گئے جنوبی افریقہ کے سفر ابراہیم رسول اتوار کو اپنے ملک لوٹ آئے۔ کیپ ٹاؤن ایئرپورٹ پر ان کے حامیوں نے ان کا زبردست استقبال کیا۔
جنوبی افریقہ کے سفیر جنہیں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امریکہ سے بے دخل کیا، ان کا ان کے آبائی ملک میں شاندار استقبال کیا گیا اور اس فیصلے پر سخت تنقید کی گئی۔ اتوار کو کیپ ٹاؤن انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہجوم نے ابراہیم رسول اور ان کی اہلیہ روزیڈا کا اس وقت شاندار استقبال کیا جب وہ امریکہ سے جنوبی افریقہ لوٹے۔ دونوں کی حفاظت کیلئے پولیس کی بھاری نفری تھی۔ ابراہیم رسول نے اپنے حامیوں کو میگا فون سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ملک میں ناقابل قبول قرار دینے یا استقبال نہ کرنے کا مقصد آپ کی تذلیل کرنا ہے۔ لیکن جب اس طرح کے ہجوم اور گرمجوشی میں آپ لوٹتے ہیں، اس وقت مَیں ’’ناقابل قبول‘‘ کا بیج عزت کے نشان کے طور پر پہنوں گا۔ ہم نے لوٹنا منتخب نہیں کیا لیکن ہمیں لوٹنے پر افسوس بھی نہیں ہے۔ ‘‘
"We dont want a white ambassador for a white President."
— 🍉 Jenna_🇿🇦 🇵🇸 🇷🇺 (@Jenna_original2) March 23, 2025
🔥 We need more people like Ebrahim Rasool who stands firm against racism. pic.twitter.com/JXtMHbkPrb
ابراہیم رسول نے یہ بھی کہا کہ ٹرمپ کی جانب سے ملک کو سزا دینے اور انہیں ملک بدر کرنے کے فیصلے سے قبل ہی امریکہ مخالف موقف اختیار کرنے کا الزام لگانے کے بعد جنوبی افریقہ کیلئے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو درست کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس میں جنوبی افریقہ کو دی جانے والی تمام فنڈنگ میں کمی کا الزام لگایا گیا تھا، جس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس کی حکومت فلسطینی گروپ حماس اور ایران کی حمایت کر رہی ہے اور اندرون ملک سفید فام مخالف پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ’ وقف بل آئین اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر حملہ ہے‘
یاد رہے کہ جنوبی افریقہ نے دسمبر ۲۰۲۳ء میں بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں ایک مقدمہ دائر کیا تھا جس میں اسرائیل پر غزہ پٹی پر جنگ میں نسل کشی کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ۱۰؍ سے زیادہ ممالک نسل کشی کے معاملے میں جنوبی افریقہ کے مقدمے میں شامل ہو چکے ہیں۔ ابراہیم نے کہا کہ ’’ہم یہاں یہ کہنے نہیں آئے کہ ہم امریکہ مخالف ہیں۔ ہم یہاں آپ کو امریکہ کے ساتھ اپنے مفادات کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کیلئے نہیں ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ ایک ہفتہ قبل ٹرمپ انتظامیہ نے انہیں ’’پرسونا نان گراٹا‘‘ (ناقابل قبول شخصیت) قرار دیا تھا، اور ان کے سفارتی استثنیٰ اور مراعات کو ختم کردیا تھا۔ ساتھ ہی انہیں ملک چھوڑنے کیلئے جمعہ تک کا وقت دیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، جنہوں نے ایکس پر اعلامیہ جاری کیا، نے کہا کہ ابراہیم ایک نسل پرست سیاستداں تھا جو امریکہ اور ٹرمپ سے نفرت کرتا ہے۔