اسلامی جمہوریہ کا جھکنے سے انکار، وزیر خارجہ نے کہا کہ’’ ہم نیک نیتی کے ساتھ سفارتکاری کو ایک حقیقی موقع دیناچاہتے ہیں‘‘، خامنہ ای کے مشیر نے متنبہ کیا کہ ایران اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو ملک سے نکال بھی سکتا ہے۔
EPAPER
Updated: April 12, 2025, 11:35 AM IST | Tehran
اسلامی جمہوریہ کا جھکنے سے انکار، وزیر خارجہ نے کہا کہ’’ ہم نیک نیتی کے ساتھ سفارتکاری کو ایک حقیقی موقع دیناچاہتے ہیں‘‘، خامنہ ای کے مشیر نے متنبہ کیا کہ ایران اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو ملک سے نکال بھی سکتا ہے۔
واشنگٹن کی دھمکیوں کے بیچ سنیچر کو امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کو ’’سفارتکاری کو ایک حقیقی موقع دینے کی کوشش‘‘ قرار دیتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نےکہا ہے کہ ان کا ملک نیوکلیائی معاملہ میں ’’حقیقی اور منصفانہ‘‘معاہدہ چاہتا ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے امریکی دھمکیوں سے گھبرانے یا جھکنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاہدہ کی ناکامی کی صورت میں ایران اقوام متحدہ کے جواہری معائنہ کاروں کو ملک سے نکال بھی سکتاہے۔ واضح رہے کہ ٹرمپ نے سنیچر کے مذاکرات سے قبل دھمکی آ میز رخ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران نیوکلیائی ہتھیاروں کے حصول سے باز نہ آیاتو اسرائیل اس پر حملہ کرسکتاہے جس کی امریکہ بھر پور مدد کرےگا۔ اتنا ہی نہیں مذاکرات سے ایک روز قبل واشنگٹن نے تہران پر نئی پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔اس کے باوجود ایران نے کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات بحال کر کے سفارت کاری کو ایک ’’حقیقی‘‘ موقع دے رہا ہے۔
عمان میں ہونے والے ان مذاکرات کا مقصد ایک ممکنہ جوہری معاہدے تک پہنچنا ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پیر کو اچانک اعلان کیا کہ ان کی انتظامیہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے گی۔ان مذاکرات کی تاریخ طے کرنے سے قبل دونوں ممالک کے مابین بیان بازی کی جنگ جاری رہی۔ ٹرمپ کی فوجی کارروائی کی دھمکی کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک مشیر نے کہا ہے کہ ’’ایران اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کو ملک سے نکال بھی سکتا ہے۔‘‘ اسپر امریکہ نے خبردار کیا کہ’’ ایسا کوئی بھی اقدامکشیدگی میں اضافے کا باعث بنے ہو گا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: بہار میں کانگریس کی ہجرت روکو، ملازمت دو یاترا، کنہیا کمار کو حراست میں لیا گیا
اس بیچ جمعہ کو ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا کہ’’ایران نیک نیتی اور مکمل احتیاط کے ساتھ سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دے رہا ہے۔امریکہ کو اس فیصلے کی قدر کرنا چاہیے، جو اس کی جارحانہ بیان بازی کے باوجود کیا گیا۔‘‘یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ خامنہ ای کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں انہوں نے مذاکرات پر زور دیا اور خبردار کیا کہ اگر تہران نے انکار کیا تو فوجی کارروائی خارج از امکان نہیں ہے۔ تہران نے دوٹوک جواب دیا کہ وہ بالواسطہ مذاکرات کیلئےتیار ہے۔ لیکن اس وقت تک براہ راست بات چیت ممکن نہیں جب تک’’ امریکہ اپنی زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی برقرار رکھتا ہے۔