محمود احمدی نژاد جمعرات کو نامزدگی داخل کرچکے ہیں،شوریٰ کمیٹی ۱۱؍ جون کو امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کرے گی ، احمدی نژاد کی ا میدواری کا امکان کم ہے۔
EPAPER
Updated: June 07, 2024, 11:02 AM IST | Agency | Tehran
محمود احمدی نژاد جمعرات کو نامزدگی داخل کرچکے ہیں،شوریٰ کمیٹی ۱۱؍ جون کو امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کرے گی ، احمدی نژاد کی ا میدواری کا امکان کم ہے۔
۲۸؍جون کو ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں سابق صدر محمود احمدی نژاد نے بھی امیدوار بننے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد ایک بار پھر سے وہ خبروں کی زینت بن چکے ہیں۔ محمود احمدی نژاد۲۰۰۵ءمیں پہلی بار ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے ۲۰۱۳ء میں یہ عہدہ چھوڑا تھا۔
۲۰۱۷ء میں محمود احمدی نژاد نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کاغذات جمع کروائے تو امیدواروں کی جانچ پڑتال کرنے والی شوریٰ نگہبان نے انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس الیکشن میں بھی وہ حصہ لے سکیں گے یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب جلد ہی مل جائے گا کیونکہ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق حتمی امیدواروں کی فہرست۱۱؍ جون کو شائع کی جائے گی۔ واضح رہےکہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت کے بعد یہ انتخابات ہورہے ہیں جس میں احمدی نژاد کی انٹری نےسیاسی صورتحال کو دلچسپ بنادیا ہے۔ احمد ی نژاد نے اتوار کو اپنی نامزدگی داخل کی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: راہل گاندھی کا مودی اور امیت شاہ پر اسٹاک مارکیٹ کے سب سے بڑے گھوٹالے کا الزام
نامزدگی داخل کرنے کے بعدانہوں نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ مجھے اعتماد ہےکہ قوم کے وسائل کازیادہ سے زیادہ استعمال کرکے ہم ایران کے تمام مسائل حل کرسکتے ہیں۔ واضح ہےکہ صدارتی انتخابات کیلئے امیدواروں کی نامزدگی کا عمل گزشتہ جمعرات کو شروع ہوا تھا اور پیر کو ختم ہوگیا۔ احمدی نژاد کے علاوہ جن امیدواروں نے نامزدگی داخل کی ہے ان میں ایرانی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکراعتدال پسندلیڈر علی لاریجانی اور قدامت پسندسابق نیوکلیائی مذاکرات کارسعید جلیلی بھی شامل ہیں۔
محمد احمدی نژاد نے ۲۰۰۵ء میں جب صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تب بھی وہ ایران کی قومی سیاست میں کوئی جانا مانا نام نہیں تھے۔ لیکن صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں انھوں نے سابق صدر ہاشمی رفسنجانی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لے کر مبصرین کو حیران کر دیا تھا اور یوں دوسرے مرحلے میں وہ ہاشمی رفسنجانی کے مدمقابل آ کھڑے ہوئے۔ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں کوئی امیدوار مقررہ پچاس فیصد ووٹ لینے میں ناکام رہا تھا جس کے بعد پہلے دو امیدواروں کے درمیان میں دوبارہ ووٹنگ ہوئی۔ انتخابات کے دوسرے مرحلے میں احمدی نژاد نے ۶۲؍ فیصد جبکہ ان کے مد مقابل سابق صدر ہاشمی رفسنجانی نے ۳۶؍ فیصد ووٹ حاصل کیے۔ انتخابات جیتنے کے بعد محمود احمدی نژاد نے انقلابِ ایران کی اسلامی اقدار اور ایران کو تیل سے حاصل ہونے والی دولت کی منصفانہ تقسیم پر زور دیا تھا۔ وہ ایران کے جوہری پروگرام پر بھی مضبوطی سے ڈٹے رہے۔