گمنام سپائیوں کا چوراہا جو کبھی تہوار کی شان و شوکت کا محور تھا، اسرائیل کی مسلسل بمباری کے سبب ویران ملبہ کا ڈھیر بن گیا ہے۔
EPAPER
Updated: December 25, 2024, 9:03 PM IST | Inquilab News Network | Gaza
گمنام سپائیوں کا چوراہا جو کبھی تہوار کی شان و شوکت کا محور تھا، اسرائیل کی مسلسل بمباری کے سبب ویران ملبہ کا ڈھیر بن گیا ہے۔
جنگ سے تباہ حال غزہ شہر میں سینکڑوں عیسائی منگل کو ایک گرجا گھر میں جمع ہوئے،جہاں انہوں نے اس جنگ کے خاتمے کیلئے دعا کی جس نے فلسطینی سرزمین کو تباہ کر دیا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے تہوار کے موقع پر چمکتی ہوئی روشنیوں، سجاوٹ، کرسمس ٹری کا مرکز ، شہر کا یہ حصہ اب سنسان ہے۔عقیدت مندوں نے امن کی دعا کی، جبکہ ساحلی پٹی میں لڑائی جاری رہی۔۱۲؍ویں صدی کےسینٹ پورفیریس کے یونانی آرتھوڈوکس چرچ میں کئی ہفتوں سے پناہ گزین جارج السیغ نے کہا کہ ’’ اس کرسمس میں موت اور تباہی کی بو آرہی ہے۔ کوئی خوشی نہیں ہے، کوئی تہوار کا جذبہ نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اگلی چھٹی تک کون زندہ رہے گا۔ خود چرچ کا ایک حصہ گزشتہ سال اکتوبر میں اسرائیلی فضائی حملے میں تباہ ہو گیا تھا، جس میں علاقے کی وزارت صحت کے مطابق، ۱۸؍فلسطینی مسیحی مارے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھئےـ: غزہ میں اسپتالوں پر حملوں میں شدت، تیسرا اسپتال خالی کروایا گیا
غزہ میں تقریباً ۱۱۰۰؍عیسائی رہتے ہیں،اس سماج کو گزشتہ سال ۷؍اکتوبر سے اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی شروع ہونے کے بعد سے جنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق اسرائیل کے حالیہ فضائی حملےکئی بچے ہلاک ہوئے، اسرائیل کے اس حملے کو پوپ فرانسس کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔پوپ نے اپنے اتوار کے اجتماع کے بعد دعا کی ’’ میں انتہائی کرب کے عالم میں غزہ کو یاد کر رہا ہوں، کیسا ظلم ہے، بچوں کو مشین گن سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسکولوں اور اسپتالوں پر بم گرائے جا رہے ہیں، ظلم کی انتہا ہو گئی ہے۔‘‘ اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے پوپ کے تبصرے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے’’ دوہرے معیار‘‘ کا مظاہرہ کیا۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل نے پہلی بار حماس لیڈر ہانیہ کو قتل کرنے کا اعتراف کیا
غزہ شہر کے رہائشی کمال جمیل سیزراینٹن، گزشتہ سال جن کی بیوی ناہیدہ اور بیٹی ثمرہ ہولی فیملی چرچ کے احاطے میں اسرائیلی اسنائپر کی فائرنگ میں جاں بحق ہو گئے تھے، کرسمس کا تہوارمیں وہ گہرے غم سے دوچارہیں نے کہا کہ’’ غزہ کا درد دکھائی دے رہا ہے، ہم امن کیلئے دعا کرتے ہیں، جنگ کے خاتمے کیلئے تاکہ لوگ محفوظ طریقے سے رہ سکیں۔‘‘ اسی قسم کے غم کا اظہار رہائشی رمیز السوری نے بھی کیا، گزشتہ سال کے اسرائیلی حملےمیں ان کے بھی تین بچے جاں بحق ہو گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ ’’ ہم ابھی تک غمزدہ ہیں، گزشتہ سال کی تباہی کے سبب ہم نے جشن نہیں منایا۔اس سال ہم جنگ کے خاتمے کی امید کر رہے تھے، لیکن ہر روز ہم اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں۔‘‘
مقامی مسیحی برادری کے رہنما جارج اینٹن نے امید ظاہر کی کہ متحارب فریق جلد ہی لڑائی ختم کر دیں گے۔انہوں نے کہا کہ’’ ہم تمام فریقین سے جنگ کو ختم کرنے اور امن کی حقیقی راہ تلاش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ہمیں امید ہے کہ دونوں قومیں ہم آہنگی اور سلامتی کے ساتھ رہ سکتی ہیں۔‘‘