رواں سال جولائی کے اواخر میں فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے سیاسی رہنما کو تہران میں قتل کر دیا گیا تھا جس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا تھا۔
EPAPER
Updated: December 24, 2024, 8:10 PM IST | Inquilab News Network | Tel Aviv
رواں سال جولائی کے اواخر میں فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے سیاسی رہنما کو تہران میں قتل کر دیا گیا تھا جس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا تھا۔
اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے پیر کو پہلی دفعہ حماس لیڈر اسماعیل ہانیہ کے قتل میں اسرائیل کے ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔ کاٹز نے بیان دیا کہ اسرائیل نے تہران میں حماس کے سابق سربراہ اسماعیل ہانیہ کے قتل کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا۔ اس موقع پر کاٹز نے عزم کیا کہ اسرائیلی فوج یمن کے حوثیوں کی قیادت کا "سر قلم" کر دے گی۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ہم حوثیوں پر سخت حملہ کریں گے۔۔۔ اور ان کے قائدین کا سر قلم کریں گے، جیسے ہم نے تہران، غزہ اور لبنان میں حانیہ، (یحییٰ) سنوار، اور (حسن) نصر اللہ کے ساتھ کیا۔ ہم حدیدہ اور صنعا میں بھی ایسا ہی کریں گے۔ کاٹز نے اس دوران پہلی دفعہ عوامی سطح پر اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جولائی میں ایرانی دارالحکومت میں ہانیہ کے قتل کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا۔
یہ بھی پڑھئے: پولینڈ: گرفتاری کے خوف سے نیتن یاہو نے ہولوکاسٹ کی تقریب میں شرکت منسوخ کی
یاد رہے کہ رواں سال جولائی کے اواخر میں فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے سیاسی رہنما کو تہران میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا تھا لیکن اس وقت ہانیہ کے قتل کے لئے اسرائیل کی جانب سے براہ راست کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تھی۔ اسماعیل ہانیہ قطر میں مقیم تھے اور حماس کی بین الاقوامی سفارت کاری کا چہرہ تھے۔ وہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کیلئے بین الاقوامی سطح پر ہونے والی بالواسطہ بات چیت میں شریک تھے۔ ہانیہ نے اپنے خاندان کے تقریباً ۶۰ افراد کو غزہ جنگ میں کھو دیا۔ ہانیہ کے بعد، ۲۷ ستمبر کو اسرائیل نے بیروت میں ایک حملے میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کو ہلاک کر دیا۔ ۱۶ اکتوبر کو اسرائیل نے حنیہ کے جانشین یحییٰ سنوار کو غزہ میں قتل کر دیا۔ اسرائیل کے ان اقدامات نے خطے میں جنگ کے پھیلنے کا خدشہ بڑھا دیا تھا اور جنگ بندی معاہدہ کے تئیں اسرائیل کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: گزشتہ ڈھائی مہینوں میں محض ۱۲؍ ٹرک امداد ہی غزہ پہنچ پائی: برطانوی امدادی ادارہ
واضح رہے کہ ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ میں جاری اسرائیل کی وحشیانہ جنگی آپریشن کی وجہ سے ۴۵ ہزار ۳۰۰ سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ جنگ کی بدولت غزہ پٹی میں خوراک، پانی، بجلی اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات کی بھی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے جبکہ غزہ پٹی کی تقریباً پوری آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔