Updated: January 25, 2025, 7:54 PM IST
| Jerusalem
۱۰؍ سالہ فلسطینی بچے عزمی ابولشعر نے غزہ میں اسرائیل کی ۱۵؍ ماہ کی جنگ کے دوران جاں بحق ہونے سے قبل اپنے موبائل فون پر ایک نوٹ لکھا تھا جو اس کےاہل خانہ کو اس کی موت کے بعد ملا۔ اپنے نوٹ میں فلسطینی بچے نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ ’’امی اور ابو اگر میں سو جاؤں اور صبح نہ اٹھوں تو مجھے معاف کر دیجئے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ اب میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اسی لئے میرے بھائی بہن کا خیال رکھئے گا۔‘‘
۱۰؍ سالہ فلسطینی بچہ عزمی ابوالشعر۔ تصویر: ایکس
۱۰؍ سالہ فلسطینی بچے عزمی ابوالشعرنے غزہ میں اسرائیل کی ۱۵؍ ماہ کی جنگ کے دوران ہلاک ہونے سے قبل اپنے موبائل فون پر ایک نوٹ لکھا تھا۔موبائل فون پر لکھے گئے نوٹ میں عظمی ابوالشارنے لکھا تھا کہ ’’امی اور ابو اگر میں سو جاؤں اور صبح نہ اٹھوتو مجھے معاف کر دیجئے گا۔ اگر میں مر جاؤں تومجھے معاف کر دیجئے گا۔‘‘عزمی ابو الشعر کے اہل خانہ نے حال ہی میں موبائل فون پر اس کا لکھا گیا نوٹ دریافت کیا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے موت، تباہی اور اپنے پیاروں کو کھونے کا غم فلسطینی بچوں پر کس طرح اثر انداز ہوا ہے۔
’’مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس زیادہ وقت نہیں۔‘‘
۱۹؍ مارچ ۲۰۲۴ءکو لکھے گئے نوٹ میں عزمی نے اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور خواتین اور بچوں کے قتل کے درمیان اپنی موت کی آگاہی کاذکر کیا ہے۔ ۱۰؍ سالہ بچے نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ ’’اسلام علیکم ! اگر میں مر جاؤں تو امی ابو اور میرے بہن بھائی نعیمہ، شاہد، مریم اور محمود مجھے معاف کر دینا۔ امی ابو اگر میں نے آپ لوگوں کو کبھی ناراض کیا ہوتو مجھے معاف کر دیجئے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ اب میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔‘‘ یہ پیغام سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر وائرل ہورہا ہے جس سے فلسطینیوں کے درد کو سمجھاجاسکتا ہے۔عظمی نے مزید لکھا ہے کہ ’’امی محمود کا خیال رکھے گا۔ نعیمہ مجھے معاف کر دینا کہ میں نے تمہیں پریشان کیا۔ شاہد، مریم اور محمود تم سب مجھے معاف کر دینا۔ میرا یقین کرو مجھے تم سب سے بہت محبت ہے، دادی، دادا،چچا اور سب سے۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب مجھے معاف کر دیں گے۔‘‘
عزمی ابوالشعر کی جانب سے لکھا گیا نوٹ۔ تصویر: ایکس
اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے ۱۷؍ ہزار بچے
غزہ کے سرکاری میڈیا کے دفتر کے اعدادوشمار کے مطابق ’’اسرائیلی جارحیت کے سبب فلسطینی خطے میں ۱۷؍ ہزار ۸۶۱؍بچوں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں۔‘‘جنگ کے دوران بہت سے بچوں نے اپنے بازؤؤں اور جسم پر اپنے نام لکھ لئے تھے تا کہ اگر وہ جاں بحق ہوجائیںتو رضاکار ان کے ناموں سے ان کی شناخت کر سکیں۔ان چیزوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی نسل کشی کے درمیان فلسطینی بچوں نے کس طرح کے ذہنی کرب کا سامنا کیا ہے۔ ۱۹؍ جنوری ۲۰۲۵ء کواسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا نفاذ عمل میں آیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: کانگریس کا اہل پوروانچل کیلئےعلاحدہ وزارت کا وعدہ
۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو شروع ہونے والی اس جنگ نے ۴۷؍ ہزار ۳۰۰؍ فلسطینیوں کی جانیں لے لیں جبکہ ۱۰؍لاکھ، ۱۱؍ ہزار ۵۰۰؍ فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ تین مراحل کی جنگ کے درمیان مغویوں کی رہائی بھی عمل میں آئے گی۔اسرائیلی مظالم کی وجہ سے غزہ ملبے میں تبدیل ہوچکا ہے، وہاں کے ۹۰؍ فیصد فلسطینی شہری بے گھر ہوچکے ہیں، بھکمری اور بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے نومبر ۲۰۲۴ءکو اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یووو گیلنٹ کے خلاف حراستی وارنٹ جاری کیا تھا ۔ تاہم، بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی اسرائیل جنوبی افریقہ کے ذریعے داخل کئے گئے نسل کشی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔