فلسطینیوں نے سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنی تباہ شدہ بستیوں کی تصاویر کے ساتھ ساتھ اسرائیلی بکتر بند گاڑیوں اور بلڈوزروں کی بھی تصاویر شیئر کیں۔ یورو - میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے فارینسک میڈیسن اور فوجداری جانچ کے ماہرین کو فوری اور غیر مشروط اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔
جنگ بندی کے اعلان سے غزہ اور دیگر علاقوں میں فلسطینی لوٹ تو رہے ہیں مگر یہاں ان کا کچھ بھی سلامت نہ رہا،پورا کے پورا شہر تباہ و تاراج ہوچکا ہے،یہ تصویر غزہ شہر کی ہے۔ تصویر: آئی این این
غزہ سمیت فلسطین بھر میں اسرائیلی بہیمانہ کارروائیوں کا سلسلہ تھم گیا ہے۔فلسطینی نئی امیدوں اور حوصلے کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں، جو درحقیقت ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
لٹے پٹے فلسطینیوں کی گھروں کو واپسی
فلسطینیوں نے سوشل میڈیا پر اپنے تباہ شدہ بستیوں کی تصاویر کے ساتھ ساتھ اسرائیلی بکتر بند گاڑیوں اور بلڈوزروں کی بھی تصاویر شیئر کی ہیں۔ غزہ اسرائیلی فوجی سازو سامان کا قبرستان بن گیا۔ تادم تحریر اسرائیلی فوج جنوبی غزہ میں رفاہ سٹی سے نکلنا شروع ہوگئی، اسرائیلی فوج مصر سرحد کے ساتھ فلاڈیلفی راہداری کے ساتھ موجود رہے گی۔اگلے مرحلے میں مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کھولی جائے گی، تیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کے معاملات طے ہوں گے، فلسطینی زخمیوں کو لینے کیلئے یمن کے صنعا کے اسپتالوں میں ہنگامی الرٹ جاری کردیا گیا۔
غزہ کا انفراسٹرکچر تباہ
فلسطینی خبررساں ادارےکی رپورٹ کےمطابق سوا سال کی جنگ نے غزہ کا انفرا سٹرکچر مکمل تباہ کردیا۔ اسرائیلی کی وحشیانہ بمباری سے بستیاں ملیا میٹ، گھر، اسپتال،اسکولز اور کالجز کھنڈر بن گئے، غزہ سٹی، شمالی غزہ، خان یونس، رفاہ، جبالیہ، دیرالبلاح شدید متاثر ہوئے۔ غزہ میں۶۰؍ فیصد عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، ۹۲؍ فیصد گھر تباہ ہوگئے،۸۸؍ فیصد اسکولز متاثر ہوئے، غزہ کے تمام اسپتال مکمل طور پر تباہ ہو گئے، صیہونی گولہ باری کے نتیجے میں فلسطین کا اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسرائیلی جارحیت میں۴۷؍ ہزار کے قریب فلسطینی جان سے گئے، ایک لاکھ۱۰؍ ہزار سے زائد افراد گولہ باری کا نشانہ بن کر زخمی ہوئے، جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل کی تازہ بمباری سے مزید۱۹؍ فلسطینی شہید اور۲۵؍ زخمی ہوگئے۔
یہ بھی پڑھئے:غزہ: حماس کی مسلح ونگ القسام کی اسرائیل کو امن معاہدے کی خلاف ورزی پر دھمکی
لاپتہ افراد کی تلاش اور لاشوں کی شناخت اہم چیلنج
مرکز اطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم یورو - میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر حقیقی دباؤ ڈالے تاکہ غزہ پٹی میں داخلے کیلئے ضروری آلات کے علاوہ تکنیکی ٹیموں اور فارینسک میڈیسن اور فوجداری جانچ کے ماہرین کو فوری اور غیر مشروط اجازت دی جائے۔ یہ ماہرین اور ٹیمیں ملبے کے نیچے سے شہد اء کی لاشوں کی بازیابی اور اسرائیلی فوج کے حملے کے علاقوں سے ان کی شناخت اور لاپتہ افراد کا پتہ چلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے پیر کے روز ایک بیان میں اس بات پر زور دیا کہ غزہ پٹی میں۱۵؍ ماہ سے جاری نسل کشی کے لیے جوابدہی کو یقینی بنانے کی خاطر یہ ضروری اقدامات ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مجرم سزا سے بچ نہ سکیں۔
رہا ہونیوالوں کا جذباتی استقبال
اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی خواتین سمیت ۹۰؍ اسیران کو لے کر ۲؍ بسیں رات دو بجے مقبوضہ مغربی کنارے پر پہنچی۔ اس وقت بڑا مجمع یہاں موجود تھا۔ یہ پیر کی صبح سے پہلے کا وقت تھا جب ایک نئی صبح کی نوید مل رہی تھی۔ اسرائیلی جیلوں میں بد ترین حالات میں نظر بند رہنے والی فلسطینی خواتین بسوں سے باہر آئیں تو ان کے اہل خانہ ، بچے اور دوسرے رشتہ دار دوڑ پڑے۔ یہ ایک آنسوؤں سے بھرا ہوا خوشی کا منظر تھا جب یہ اسیر فلسطینی مائیں اور بیٹیاں اپنے رشتہ داروں سے گلے مل رہی تھیں۔ بچوں نے اس وقت بھی حماس کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔ ان کی زبان پر نعرے تھے ، ہاتھوں میں پرچم اور وہ پر جوش انداز میں بسوں کی چھتوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ دوسری جانب فلسطینی خوشی میں آتش بازی کر رہے تھے۔ عام طور پر بیتونیا کے مضافات خاموش نظر آتے ہیں۔ لیکن پیر کے روز علی الصبح بھی خوب رونق بلکہ جشن کا سماں تھا۔ ان رہائی پانے والی فلسطینی بیٹیوں میں ایک خاتون صحافی بھی شامل تھیں۔ انہیں مارچ۲۰۲۴ء میں اسرائیلی فورسیز نے گرفتار کیا تھا۔ اب فلسطینی اسیران کی پہلی کھیپ میں انہیں بھی رہائی ملی ہے۔۲۳؍ سالہ آمندا ابو شارخ نے کہا ` میں یہاں رہائی پانے والوں کے خاندانوں کے جذبات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے آئی ہوں۔ لیکن یہاں آیا ہوا ہر فرد ہی اس خاندان کاحصہ ہے۔
تباہی و ہولناکی جسے رُلانہ سکی وہ اپنے شہید بابا کی یاد پر سسک پڑی!
غزہ کی دو بہنوں کا یہ ایک ویڈیو ایکس پر ’پیلیسٹائن زیرو زیرو ون انڈراسکور‘ نامی اکاؤنٹ سے شیئر کیا گیا ہے۔جس میں جنگ بندی کے بعد پناہ گزیں کیمپ سےنکل کر دوچھوٹی بہنیں اپنے تباہ حال گھر کو لوٹیں۔ ان میں سے چھوٹی خود پر قابو نہ رکھ سکی۔ وہ زاروقطار رونے لگی ۔ اس منظر کو اپنے موبائل کیمرے میں محفوظ کرنیوالی خاتون نے پوچھا ’’ پیاری بچی بتاؤ تمہارے گھر کون شہید ہوا؟‘‘گلوگیر لہجے میں بچی نے بتایا ’’میرےبابا( ابو)‘‘خاتون نے مزید پوچھا ’’اور کوئی؟‘‘ اس نے بتایا’’محمد اور ۳؍ چھوٹے بھائی‘‘خاتون نے کہا’’تمہیں غم ہے؟‘‘ اس نے کہا’’بہت زیادہ ‘‘تب اس سے سال دو سال بڑی بہن نے اس کے کندے پر ہاتھ رکھا اور کہا’’مت روؤ‘‘خاتون نے پوچھا ’’تم اس کی بہن ہو؟، کیا نام ہے تمہارا؟‘‘اس نے مسکراکر اپنا نام ’علاق‘ بتایا۔ خاتون نے اس کا حوصلہ بڑھایا ’’تم تو بڑی بہادر ہو، تمہاری مسکان بھی بڑی پیاری ہے۔(اس غم کے باوجود )تم مسکرارہی ہو؟‘‘اس نے کہا ’’کیونکہ میرے بابا اور بھائی (فوت نہیں)شہید ہوگئے۔‘‘ خاتون نے کہا’’ان شاء اللہ وہ انبیاء اور صدیقین کیساتھ اٹھائے جائیں گے‘‘
اسرائیلی جیل سے رہا ہونیوالی فلسطینی خواتین بیتونیا پہنچنے پراپنوں کو دیکھ کر روپڑیں۔ تصویر:آئی این این
سخت حالات میں کئی ماہ تک مقید رہنے والی فلسطینی لیڈر خالدہ جرار بھی رہا ہوئی ہیں۔ تصویر: آئی این این