Updated: December 19, 2024, 8:03 PM IST
| Jerusalem
ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ ’’اسرائیل کا غزہ میں سیکڑوں فلسطینیوں کوپانی سے محروم رکھنا نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے اور یہ کسی قوم کو منظم طریقے سے نیست و نابود کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے سبب اب تک ۴۵؍ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے سبب فلسطینیون کی زندگی مشکل ہوگئی ہے۔ تصویر: ایکس
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے کہا کہ ’’اسرائیل نے غزہ میں سیکڑوں فلسطینیوں کو پانی سے محروم رکھا ہے جو نسل کشی اورکسی قوم کو نیست و نابود کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’یہ پالیسی غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کا حصہ ہےجس کا معنی ہے کہ اسرائیلی حکام نے غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس پالیسی میں ۱۹۴۸ء کے نسل کشی کے کنونشن کے تحت ’’نسل کشی کی کارروائیاں‘‘ بھی شامل ہیں۔‘‘ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبیلو) کی رپورٹ میں ’’فلسطینیوں کو پانی سے محروم رکھنے کو نسل کشی کی کارروائی قرار دیا گیا ہے۔‘‘ رپورٹ میں متعدد اسرائیلی حکام کے بیانات بھی درج کئے گئے ہیں جن سے اشارہ ملتا ہے کہ ’’وہ فلسطینیوں کو تباہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں‘‘، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ’’پانی سے محروم رکھنا نسل کشی کے جرم کے زمرے میں شامل ہوسکتا ہے۔‘‘ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کی ڈائریکٹر لیما فقیہ نے کہا کہ ’’ہم نے جو معلوم کیا ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کو منظم طریقے سے پانی سے محروم رکھ کر انہیں مارنا چاہتی ہے۔‘‘
یاد رہے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کرنے کے بعد کہ ’’اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہے‘‘، ہیومن رائٹس واچ ایسا دوسرا ادارہ ہے جس نے غزہ میں اسرائیل کی جنگی کارروائیوں کو بیان کرنے کیلئے ’’نسل کشی‘‘ جیسا لفظ استعمال کیا ہے۔یہ دونوں رپورٹس بین الاقوامی عدالت انصاف کے ذریعے اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یووو گیلنٹ کے خلاف حراستی وارنٹ جاری کرنے کے بعد سامنے آئی ہیں۔۱۹۴۸ء نسل کشی کا کنونشن نازی جرمنی ہولوکاسٹ کے درمیان منظور کیا گیا تھا جس کا معنی ہے ’’کسی قوم، کسی نسل یا کسی مذہبی گروہ کو منظم طریقے سے تباہ کرنا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: بحر ہند کے ممالک تباہ کن سونامی کی ۲۰؍ ویں برسی منائیں گے
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کی ۱۸۴؍صفحات کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’اسرائیلی حکومت نے غزہ میں پانی کی فراہمی ،بجلی کاٹ دی ہے اور ایندھن کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کا پانی اور سینی ٹیشن سسٹم استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں غزہ کے متعدد علاقوں میں دن بھر میں صرف کچھ ہی لیٹر پانی پہنچ سکتا ہے جبکہ انسان کو زندگی گزارنے کیلئے ۱۵؍لیٹرپانی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ یاد رہے کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں ۴۵؍ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق جبکہ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جنگ کے آغاز کے بعد سے غزہ میں بنیادی اشیاء، جیسے پانی، خوراک، ایندھن وغیرہ کی رسائی مشکل ہوگئی ہے جس سے فلسطینی بھکمری کا سامنا کر رہے ہیں۔