• Tue, 04 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ جنگ: خواتین اور لڑکیوں پر حملے کو نسل کشی کے طورپر استعمال کیا گیا: اقوام متحدہ

Updated: February 03, 2025, 9:45 PM IST | Gaza

اقوام متحدہ (یو این) کی مخصوص نمائندہ ریم السلیم نے کہا کہ ’’غزہ میں اسرائیل نے خواتین اور لڑکیوں پر حملے کو نسل کشی کے ہتھیار کے طور پراستعمال کیا ہے۔‘‘

Reem al-Salim, inset Palestinian women. Photo: INN
ریم السلیم، انسیٹ فلسطینی خواتین۔ تصویر: آئی این این

خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کیلئے اقوام متحدہ (یو این) کی خاص نمائندہ ریم السلیم نے کہا کہ ’’اسرائیل کی مقبوضہ فوج خواتین کے قتل اور ’’تولیدی صحت‘‘ کو نسل کشی کے ہتھیار کے طورپر استعمال کر رہی ہے۔انہوں نے اتوارکو کہا کہ ’’غزہ میں خواتین پر اسرائیلی حملے منظم نسل کشی کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جب ہم اسرائیل کی تمام کارروائیوں کو دیکھتے ہیں تو یہ سمجھ آتا ہے کہ مخصوص طریقے سے فلسطینیوں کی ’’تولیدی صلاحیت ‘‘کو نشانہ بنانا اسرائیل کا مقصد ہے۔‘‘

اسرائیل کے خواتین کو نشانہ بنانے کے سبب ہزاروں فلسطینی بچوں نے اپنی ماؤں کو کھودیا۔ تصویر: ایکس

انہوں نے اس بات پرزور دیا کہ ’’فلسطینیوں خواتین کو صرف اس لئے نشانہ بنانا کہ وہ خواتین ہے، جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اقوام متحدہ (یو این) کے نسل کشی کے کنونشن کے تحت بھی کسی بھی قوم کا طبقے میں ’’عمل تولید‘‘ کو روکنے کے مقصد سے نسل کشی کی کارروائیاں ممنوع ہیں۔ہم تمام چیزوں کا جائزہ لیں تو ہمیں سمجھ آتا ہے کہ ’’غزہ میں طبی سیکٹرکی تباہی، نوزائیدہ بچوں کو نشانہ بنانا، حاملہ خواتین اور خواتین نرس کیلئے حالات خوفناک بنا دینا اسرائیل کے نسل کشی کے تشدد کے ہتھیار ہیں جن کا مقصد فلسطینی آبادی کو پھلنے پھولنے سے روکنا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کا ڈیزائن کردہ اے آئی بوٹ فلسطین حامی پیغامات نشر کرنے لگا

انہوں نے اقوام متحدہ (یو این) کے پاپولیشن فنڈ کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل کےذریعے خواتین اور بچوں پر حملہ کرنے کے تباہ کن اثرات کی نشاندہی کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’غزہ میں۸۰۰؍ہزارخواتین کوان کے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور کیا گیااور ایک ملین سے زائد خواتین اور لڑکیاں ناقص تغذیہ کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ غزہ کی صورتحال اس جہت پر پہنچ گئی ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’غزہ میں ناکافی طبی خدمات، نفسیاتی صدمے اور بمباری کی وجہ سے اسقاط حمل کی شرح میں ۳۰۰؍ فیصد ضافہ ہوا ہے۔ یہ صرف نسل کشی نہیں ہے۔ اس کا واضح مطلب منظم طریقے سے قتل اور قانونی حدود کی تباہی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK