• Sat, 16 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ میں طبی نظام تباہ، زچگی میں مشکلات

Updated: April 21, 2024, 11:43 AM IST | Agency | New York / Ramallah

’یو این ایف پی ‘کے مطابق غزہ میں طبی نظام کی تباہی سے ہزاروں حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔

Pregnant women live in such tents, this photo was posted by the United Nations on X. Photo: INN
حاملہ اس طرح کے خیموں میں مقیم ہیں، یہ تصویر اقوام متحدہ نے ایکس پر پوسٹ کی ہے۔ تصویر : آئی این این

غزہ میں طبی نظام تباہ ہوچکا ہے جس سے زچگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ غزہ کے طبی مراکز میں ہونے والی تباہی اور بڑے پیمانے پر غذائی و آبی قلت کے سبب حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کی زندگی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ 
زچگی کی پیچیدگیاں قبل از جنگ دور کے مقابلے میں دو گنا بڑھ گئی ہیں۔ جنگ سے پہلے زچگی کے تقریباً۱۵؍ فیصد واقعات میں خواتین کو ہنگامی طبی مدد کی ضرورت ہوتی تھی۔ بعض ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ اس میں دو گنا اضافہ ہو گیا ہے اور اس کی وجہ غذائی قلت، پانی کی کمی اور خوف ہے۔ یہ حالات بچوں کو محفوظ طور سے جنم دینے کیلئے حاملہ خواتین کی جسمانی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں نہ صرف حمل کے ۹؍ ماہ بلکہ زچگی کے دوران بھی سنگین طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
  گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے ’یو این ایف پی اے‘ کےفلسطین کے نمائندے ڈومینیک ایلن نے ایک وفد کے ساتھ شمالی، وسطی اور جنوبی غزہ میں حملوں کا نشانہ بننے والے طبی مراکز دورہ کیا تھا۔ دورہ مکمل کرنے کے بعد ان کا کہناتھا، ’’اس دورے میں میں نے جو کچھ دیکھا، وہ انتہائی دل شکن اور ناقابل بیان تھا۔ ‘‘
  ان کا یہ بھی کہناتھا، ’’غزہ کے اکثر اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے جن میں علاقے کا دوسرا بڑا طبی مرکز `النصر اسپتال بھی شامل ہے۔ اس اسپتال میں طبی آلات کو بظاہر دانستہ طور پر تباہ کر دیا گیا تھا، الٹرا ساؤنڈ مشینوں کی تاریں کاٹ دی گئی تھیں اور طبی مقاصد کیلئے استعمال ہونے والی مشینوں کی اسکرینیں توڑی جا چکی تھیں۔ زچگی کے شعبے میں جو تباہی دیکھنے کو ملی، اسے سوچی سمجھی کارروائی کہنا بے جا نہ ہو گا۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: رفح پر زمینی یلغار کی تیاری، فوج تعینات، حملے تیز

یاد رہے کہ  النصر اسپتال کا زچہ وارڈ غزہ میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا شعبہ ہے جس کی `یو این ایف پی اے سالہا سال سے مدد کرتا رہا ہے۔ 
ادارے کےترجمان کا کہنا  تھا، ’’ اس اسپتال کو دوبارہ فعال کرنے کیلئے پانی اور نکاسی آب کے نظام کی تعمیر نو درکار ہو گی اور بجلی کے تباہ شدہ جنریٹروں کی مرمت کرنی ہو گی۔ ادارہ اسپتال کے جس گودام میں امدادی سامان پہنچاتا رہا ہے، وہ جل چکا تھا اور اسے دوبارہ کارآمد بنانے کیلئے بہت محنت درکار ہے۔ ‘‘
 `یو این ایف پی اے کے وفد نے ۱۰؍  دن تک غزہ کے طبی نظام کا جائزہ لیا۔ اس کا مقصد غزہ میں تقریباً۱۰؍ بڑے اسپتالوں کا جائزہ لینا تھا۔ ان میں وسطی غزہ کا الاقصیٰ اسپتال بھی شامل ہے جو زخمیوں سے بھرا ہوا تھا اور وہاں زچگی کی کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی۔ 
 جنوبی غزہ کے اماراتی اسپتال میں ایک ڈاکٹر نے بتایا، ’’ حالیہ عرصہ میں پیدا ہونے والے بچوں کی جسامت اوروزن معمول سے کہیں کم ہے۔ ‘‘
 ادھر اسرائیل کے حملے کے بعدرفح کے طبی عملہ میں بھی خوف و ہراس پایا جارہا ہے۔ یہاں کا طبی نظام بھی متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ یہاں معالجین، نرسیں، حاملہ خواتین اورا مدادی اداروں سے وابستہ افراد بری طرح پریشان ہیں۔ یہ علاقہ محفوظ سمجھا جاتا تھا اور یہاں کا طبی نظام بھی متاثر نہیں ہوا تھا لیکن اب رفح کے عام شہریوں کے ساتھ ساتھ یہاں حاملہ خواتین بھی پریشانی اور اندیشوں میں مبتلا ہوگئی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK