• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ جنگ: موسم سرما کے درمیان کروڑوں فلسطینی پناہ سے محروم ہیں

Updated: November 21, 2024, 4:35 PM IST | Jerusalem

ناروے کی رفیوجی کاؤنسل نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ’’غزہ میں موسم سرما کا آغاز ہوچکا ہے اور لاکھوں فلسطینیوں کے پاس سر ڈھانپنے کیلئے شیلٹرز نہیں ہیں۔ فلسطینیوں نے جو خیمے بنائے ہیں وہ موسم سرما میں ٹھنڈ ہواؤں اور درجہ حرارت کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘

Food shortages have forced millions of Palestinians to face starvation. Photo: X
خوراک کی کمی نے کروڑوں فلسطینیوں کو بھکمری کا سامنا کرنے پر مجبور کیا ہے۔تصویر: ایکس

ناروے رفیوجی کاؤنسل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’غزہ میں موسم سرما کا آغاز ہوچکا ہے اور فلسطینیوں کے پاس سر ڈھانپنے کیلئے شیلٹرز نہیں ہیں۔‘‘ خیال رہے کہ غزہ میں اسرائیلی جنگ کے نتیجے میں زیادہ تر عمارتیں ملبے تلے دب چکی ہیں جس کی وجہ سے متعدد افراد عارضی خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں جو انہیں حفاظت بھی فراہم نہیں کر سکتے ہیں۔ این آر سی کی شیلٹر اسپشلسٹ ایلسن ایلی نے کہا کہ ’’کچھ افراد نے چاول کے بوروں سے خیمے بنائے ہیں تا کہ کم ازکم ان کے پاس پناہ لینے کیلئےکچھ تو ہو۔‘‘ انہوں نے متنبہ کیا کہ ’’موسم سرما میں یہ کمزور شیلٹرز ٹھنڈی ہواؤں، موسلادھار بارش اور سرد درجہ حرارت کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘ 

غزہ میں کروڑوں فلسطینیوں کے پاس شیلٹرز نہیں ہیں۔ تصویر: ایکس

این آر سی نے نشاندہی کی کہ موسم سرما میں غزہ کا درجہ حرارت ۶؍ ڈگری سیلسیس (۴۲؍ ڈگری فرہنٹ) تک گر سکتا ہےجس کی وجہ سے سانس لینے میں انفیکشن اور دیگر بیماریاں ہوسکتی ہیں۔‘‘غزہ میں خاندانوں کے پاس آگ سینکنے یا تاپنے کیلئے کچھ نہیں جس کی وجہ سے وہ پلاسٹک یا دیگر خراب مواد جلا کر آگ تاپ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کیلئے صحت کے مزید خطرات لاحق ہورہے ہیں۔ موسم سرما میں فلسطینیوں کیلئے مزید ایک خطرہ ہے کیونکہ لکڑیاں اورعارضی خیموں میں استعمال کیا جانے والا ایندھن اکثر وبیشتر کھانا پکانے اور آگ تاپنے میں استعمال ہوتا ہے۔کم ذرائع نے فلسطینیوں کیلئے مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: سویڈن، ناروے اور فن لینڈ میں جنگ کا الرٹ

ہم اسے زندگی نہیں کہتے: ۱۹؍ سالہ ناگھم 
اس ضمن میں ۱۹؍ سالہ بے گھر فلسطینی ناگھم نے کہا کہ ’’ہم اسے زندگی نہیں کہہ سکتے۔ ہمیں غذا اور پانی تلاش کرنے کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہر جانب سے زندگی مشکل میں گھری ہوئی ہے۔ ہم کوئی بھی چیز آسانی سے حاصل نہیں کرسکتے ہیں اور ہم ایسی ہی زندگی گ زارنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے پاس سونے کیلئے گدا نہیں ہے اسی لئے ہم چٹائی پر سونے پر مجبور ہیں۔ ہمارے پاس رضائیاںبھی نہیں ہیں اسی لئے رات کے وقت خیمے میں اور زیادہ سردی لگتی ہے۔‘‘

فلسطینی خطے میں کروڑوں فلسطینیوں نے اسکولوںکو شیلٹر بنایا ہے۔ تصویر: ایکس

ایک سال سے زائد عرصے سے ناگھم بمباریوں سے پناہ لینے کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرنے پر مجبو رہیں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا اور وہ کھلے آسمان کے نیچے سونے پر مجبور تھیں۔ غزہ کے دیگر نوجوانوں کی طرح ناگھم کی تعلیم کا سلسلہ بھی منقطع ہوچکا ہے کیونکہ غزہ میں بمباری کے درمیان اسکولیں اور یونیورسٹیاں بند ہیں اور فلسطینی بچے تعلیم سے محروم ہوچکے ہیں۔
۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک این آر سی نے ایک لاکھ ۲۰؍ ہزار افراد کو شیلٹر اور دیگر بنیادی اشیاء جیسے خیمے، رضائی، چٹائی اور کچن کے سیٹ فراہم کئے ہیں۔ تاہم، اب بھی لاکھوں فلسطینی بنیادی اشیاء سے محروم ہیں اور غزہ جنگ نے ان کی زندگیوں کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK