Updated: October 31, 2024, 9:08 PM IST
| Jerusalem
دنیا بھر کے ایک ہزار سے زائد مصنفین اور ادبی ماہرین، جن میں نوبیل انعام یافتہ اینی ایراناکس اور بکر پرائز یافتہ اروندھتی رائے بھی شامل ہیں، نے اسرائیلی پبلشرز کا بائیکاٹ کرنے کیلئے کھلے خط پر دستخط کی ہے۔ اس خط میں اسرائیل کے ایسے ثقافتی اداروں کابائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جنہوں نے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی حمایت کی ہے یا غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف مظالم کے خلاف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
دنیا بھر کے ایک ہزار سے زائد مصنفین اور ادبی ماہرین ، جن میں نوبیل انعام یافتہ اینی ایراناکس، بکر پرائز یافتہ اروندھتی رائے اور دیگر مصنفین بھی شامل ہیں، نے اسرائیلی پبلشرز کا بائیکاٹ کرنے کا عہد کیا ہے۔خیال رہے کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں ۴۳؍ ہزار سے زائد فلسطینی اپنی جانیں گنواچکے ہیں جبکہ ۹۷؍ ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ مصنفین اور ادبی ماہرین نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’’ہم ایسے ثقافتی اداروں کے ساتھ کام نہیں کریں گے جو غزہ میں اسرائیلی نسل کشی میں ملوث ہیں یا فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مظالم پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔‘‘ اس خط پر جن مصنفین اور ادبی ماہرین کے دستخط ہیں ان میں ایرش مصنفہ سیلی رونی، جو مشہور ناول نارمل پیپل کی مصنفہ ہیں اور ہمیشہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی پالسیسیوں کی مخالفت کی ہے،پلٹزر پرائز یافتہ ویت تھانہ اور بکر پرائز یافتہ مازا مینجسٹ بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: دوسری سہ ماہی میں سونے کی مانگ ۱۸؍فیصد بڑھی
اس مہم کا انعقاد ۶؍ وکالتی گروپوں نے کیا تھا جن میں بکس اگینسٹ جینوسائیڈ اور دی فلسطین فیسٹیول آف لٹریچر بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ۹۸؍ اسرائیلی پبلشرز کا جائزہ لیا اور انہیں یہ معلوم ہوا کہ صرف ایک ہی اسرائیلی پبلشر ’’نومبر بکس‘‘ نے آزادانہ طورپر نسلی عصبیت اور عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اداروں نے کہا ہے کہ بہت سے اسرائیلی پبلشرز نے اسرائیلی قبضے کی حمایت کی ہے جن میں ’’موادن پبلشنگ‘‘ بھی شامل ہے جنہوں نے اسرائیلی وزارت دفاع کیلئے پروپیگنڈہ کتابیں پروڈیوس کی تھیں ۔علاوہ ازیں ایسے پبلشرز میں ’’بار ایلان یونیورسٹی پریس‘‘بھی شامل ہیں جو جیوش نیشنل فنڈ کے ساتھ شراکت میں `زمین کی تعمیر اور آباد کاری کو فروغ دینے والی کتابوں کیلئے اعزاز سے نوازتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: سی پی جے امپیونٹی انڈیکس: ہیتی، اسرائیل صحافیوں کے قاتلوں کو سزا نہیں دے رہے ہیں
آزادانہ خط میں لکھا ہوا ہے کہ ’’اس طرح کی ناانصافیوں کو ختم کرنے میں ثقافت اہم کردار ادا کرتی ہے اور پبلشرز، ایڈیٹرز، اور ایجنٹس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیلی ریاست اور اسرائیل کے حمایت والے اداروں کی حمایت کو ختم کرنے کیلئے اپنی شراکت داری اور اخلاقی ذمہ داری قبول کریں۔‘‘ اس خط کے جواب میں یو کے لائرز فار اسرائیل (یو کے ایل ایف آئی) نے تجارتی اداروں اور پبلشرز نے مشترکہ بیان جمع کیا ہے جس میں انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہ ’’بائیکاٹ کال اسرائیلی اداروں کو الگ کرکے `اسرائیلیوں کے خلاف صریحاً امتیازی سلوک ہے۔‘‘یو کے ایل ایف آئی نے امتیازی سلوک مخالف قوانین کے تحت اس کے اراکین کی طرف سے ممکنہ قانونی اثرات کا انتباہ بھی دیا ہے۔ تاہم،اس خط کا انعقاد کرنے والے افراد نے جن میں پال فیسٹ کے شریک بانی عمر رابرٹ ہیملٹن بھی شامل ہیں، نے یو کے ایل ایف آئی کے بیان کو ’’اخلاقی دیوالیہ پن ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس طرح کے ردعمل صرف یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ اسرائیل کے حمایتیوں کے پاس کہنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘