Updated: October 12, 2024, 4:31 PM IST
| Jerusalem
نوبیل انعام برائے امن سے سرفراز ہونے والی جاپانی تنظیم نیہان ہیدانکیو کے شریک بانی توشیوکی میماکی نے جاپان میں دوسری جنگ عظیم کے تباہ کن اثرات کو یاد کرتے ہوئے واضح انداز میں کہا کہ غزہ میں خون میں لت پت بچوں کو پکڑ کر قید کیا جارہا ہے۔ یہ صورتحال ۸۰ سال قبل جاپان کی صورتحال کی طرح ہے۔
نیہان ہیدانکیو کے شریک بانی توشیوکی میماکی۔تصویر: ایکس
حال ہی میں امن کیلئے نوبیل انعام جیتنے والی جاپانی تنظیم نیہان نیہان ہیدانکیو، کے شریک سربراہ توشیوکی میماکی نے غزہ میں بچوں کی حالت زار اور دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جاپان کی تباہی کے درمیان موازنہ کیا ہے۔ میماکی کے تبصرے نے تاریخ کے دو المناک لمحات کے درمیان نمایاں مماثلت کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ ٹوکیو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران، میماکی نے غزہ میں جاری اسرائیل کی نسل کشی پر مبنی وحشیانہ جنگ پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر انہوں نے فلسطینی بچوں کے مصائب کو ۱۹۴۵ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم حملوں کے بعد جاپانی بچوں کو درپیش ہولناکیوں کے برابر قرار دیا۔
یہ بھی پڑھئے: ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے عالمی تجارتی ترقی کے تخمینے میں تخفیف کردی
میماکی نے جاپان میں دوسری جنگ عظیم کے تباہ کن اثرات کو یاد کرتے ہوئے واضح انداز میں کہا کہ غزہ میں خون میں لت پت بچوں کو پکڑ کر قید کیا جارہا ہے۔ یہ صورتحال ۸۰ سال قبل جاپان کی صورتحال کی طرح ہے۔ واضح رہے کہ جوہری بم دھماکوں میں زندہ بچ جانے والے افراد کی نمائندگی کرنے والے نیوکلیائی ہتھیار مخالف گروپ نیہان ہیدانکیو کو نیوکلیائی ہتھیاروں سے پاک دنیا کیلئے کوشاں رہنے کیلئے ۲۰۲۴ء کے امن نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ مذکورہ تنظیم نیوکلیائی ہتھیاروں کے خاتمہ کیلئے سرگرم ہے۔
میماکی کے تبصرے نے غزہ کی صورتحال کی طرف توجہ دلائی ہے جو جنگ کے تباہ کن اثرات سے مکمل طور پر تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت نے تصدیق کی کہ اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ۴۲ ؍ہزار تجاوز کر چکی ہے۔ان ہلاکتوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ مہلوکین میں زائد از ۱۷ ہزار بچے اور ۱۱ ہزار ۵۰۰ سے زائد خواتین شامل ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے جاری اسرائیلی جنگی کارروائیوں میں تقریباً ۹۸ ؍ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔ خصوصاً بچوں پر اس جنگ کے خوفناک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: سرکاری مدارس کے اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ
غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق، اسرائیلی فوج نے گزشتہ ایک سال کے دوران غزہ میں ۳؍ ہزار ۶۵۴ ؍قتل عام کئے۔ اسرائیل کی بمباری میں غزہ کا تقریباً تمام علاقہ کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ غزہ پٹی میں ۸۷ ہزار سے زائد گھر زمین دوز ہوچکے ہیں۔ بنیادی شہری ڈھانچہ اور اہم انفراسٹرکچر، مثلاً اسکولیں، اسپتال اور پناہ گاہیں بھی تباہ ہو چکی ہیں۔ جنگ کی وجہ سے ۷ ؍لاکھ سے زائد فلسطینی طلبہ کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔ مختلف تنظیموں نے غزہ میں جنگ سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ۱۸؍ بلین ڈالر سے زیادہ لگایا ہے۔ یاد رہے کہ ۶ ؍اور ۸ ؍اگست ۹۴۵ء کو ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے نتیجہ میں بے مثال انسانی جانی نقصان ہوا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق دھماکوں سے ۱ لاکھ ۲۰ ؍ہزار افراد فوری طور پر ہلاک ہو گئے تھے جبکہ دیگر بے شمار افرد کئی ماہ بعد جلنے، تابکاری اور دیگر زخموں اور بیماریوں کی وجہ سے اذیت ناک موت کا نوالہ بنے۔ ان جوہری بم سے مرنے والوں کی کل تعداد، تقریباً ۲ ؍لاکھ ۱۰ ؍ہزار بتائی جاتی ہے۔ زندہ بچ جانے والے افراد، جنہیں ہیباکوشا کے نام سے جانا جاتا ہے، کو بقیہ عمر کیلئے جسمانی اور نفسیاتی مصائب، بیماریوں، معذوری اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔