ترکی کی خاتون اول امینہ اردگان نے دوحہ فورم ۲۰۲۴ء سے خطاب کے دوران فلسطین معاملے پر مغربی دنیا اور اسرائیل کو آڑے ہاتھوں لیا، اور زور دے کر کہا کہ غزہ میں جو ہورہا ہے وہ ’’جدید ہولوکاسٹ‘‘ ہے۔
EPAPER
Updated: December 07, 2024, 8:19 PM IST | Doha
ترکی کی خاتون اول امینہ اردگان نے دوحہ فورم ۲۰۲۴ء سے خطاب کے دوران فلسطین معاملے پر مغربی دنیا اور اسرائیل کو آڑے ہاتھوں لیا، اور زور دے کر کہا کہ غزہ میں جو ہورہا ہے وہ ’’جدید ہولوکاسٹ‘‘ ہے۔
ترکی کی خاتون اول امینہ اردگان نے زور دے کر کہا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کے مظالم ’’جدید دور کا ہولوکاسٹ‘‘ ہیں اور یہ ایک پوری قوم اور ان کی ثقافت کو تاریخ سے مٹانے کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہیں۔ امینہ اردگان نے قطر میں دوحہ فورم ۲۰۲۴ء سے خطاب میں کہا کہ ’’ہم فلسطین میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ جنگ نہیں ہے، یہ ایک ایسا عالمی نظام مسلط کرنے کی کوشش ہے جس میں صرف مضبوط اور ظالم لوگ ہی زندہ رہ سکتے ہیں، جبکہ دیگر زندگیاں آسانی سے تلف کی جا سکتی ہیں۔‘‘ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ جاری تشدد کا مقابلہ کرے۔
Sayın Emine Erdoğan Hanımefendi (@EmineErdogan):
— Mahinur Özdemir Göktaş (@MahinurOzdemir) December 7, 2024
"Filistin’de tanık olduğumuz şey bir savaş değil. Bu, sadece en güçlü ve zalim olanın hayatta kaldığı, öteki hayatların kolayca harcanabildiği bir dünya düzenini kabul ettirme çabası"#UnitedforPeaceinPalestine pic.twitter.com/0CH4yBkHUI
یہ دیکھتے ہوئے کہ غزہ، فلسطین میں اسرائیلی حملوں کے دوران ۱۶؍ ۃمار بچوں سمیت ۴۴؍ ہزار سے زائد شہری شہید ہوئے ہیں اور یہ کہ اسپتالوں سے لے کر اسکولوں اور یتیم خانوں تک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا ہے، امینہ اردگان نے اسرائیل کے اپنے دفاع کے جواز کے جواز پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اسرائیل، غزہ پر ۷۰؍ ہزار ٹن سے زیادہ بم گرا کر خود کو کس سے بچا رہا ہے؟ اس آبادی سے جس کی نصف آبادی کی عمر ۱۸؍ سال سے کم ہے؟‘‘ ترکی کی خاتون اول نے زور دے کر کہا کہ فلسطین میں ۱۴؍ ماہ سے جاری منظم ظلم انسانیت کے اجتماعی ضمیر کا امتحان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آئیے اس تعریف کو واضح کریں کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے اقدامات جدید ہولوکاسٹ ہیں۔‘‘
فورم سے خطاب کرتے ہوئے، امینہ اردگان نے اس بات پر زور دیا کہ ہر شہری کی اندھا دھند موت اخلاقی حدود کو مزید ختم کر دیتی ہے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ تاریخ میں پہلی بار، کسی نسل کشی کو اس کے متاثرین کے ذریعے براہ راست نشر کیا جا رہا ہے، اس امید پر کہ کہیں سے مدد ملے گی۔نام نہاد `مہذب دنیا (مغربی دنیا) فلسطینیوں کے مصائب سے آنکھیں چرانے کے باوجود انسانی اقدار کے دعویدار ہونے اور اپنی خاموشی کے ذریعے شرمناک طور پر شریک ہے۔ کیا `انسان کی تعریف صرف ان لوگوں پر لاگو ہوتی ہے جو مغرب کی طرف سے متعین حدود میں رہتے ہیں؟ ہمیں یاد رکھنا چاہئے، تاریخ آنے والی نسلوں کیلئے لکھی جا رہی ہے تاکہ وہ اس پر دھیان دیں۔‘‘