جرمنی کے براڈکاسٹرڈوشے ویلے کو اس کے متعصبانہ نقطہ نظر کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے، ایک سینئر ملازم کا کہنا ہے کہ آزادی صحافت، آزادی اظہار اور ضمیر کی آزادی جیسے عظیم تصورات محض جملہ ہیں۔۔
EPAPER
Updated: December 22, 2024, 12:14 PM IST | Inquilab News Network | Berlin
جرمنی کے براڈکاسٹرڈوشے ویلے کو اس کے متعصبانہ نقطہ نظر کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے، ایک سینئر ملازم کا کہنا ہے کہ آزادی صحافت، آزادی اظہار اور ضمیر کی آزادی جیسے عظیم تصورات محض جملہ ہیں۔۔
ایک رپورٹ کے مطابق، جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈوشے ویلے کے نیوز روم کی سینئر شخصیات، نے ادارے پر الزام عائد کیا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی جنگ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو خوف کی فضاکا سامنا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق عملے کے ۱۳؍ فری لانسرز اور ایک سابق طویل مدتی نامہ نگار نے نے ڈی ڈبلیو کو بے نقاب کیا۔ ان کے مطابق ڈوشے ویلے کے نظریات اسرائیل نواز اور فلسطین مخالف تعصب پر مبنی ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو برلن کے دفتر میں فلسطینیوں اور ان کے حامی مظاہرین کے بارے میں اسلام مخالف اور غیر انسانی تبصرے کرتے ہوئے سنا ہے۔مزید برآں، انہوں نے الجزیرہ کے سامنے کئی داخلی دستاویزات کا انکشاف کیا۔
ان دستاویزات میں سے ایک’’ ممکنہ واپسی‘‘ ہے جسے نامہ نگار لائیو انٹرویو کے وقت استعمال کر سکتے تھے، ان بیانات کے خلاف جن میں اسرائیلی مظالم کی مذمت اور اسرائیل پر جنگی جرائم کا الزام عائد کیا جائے۔اس کے علاوہ عملے کو فلسطین لفظ استعمال کرنے کی بجائے مغربی کنارہ، غزہ یا فلسطینی علاقے استعمال کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، تاکہ فلسطین کا ریاست ہونا ظاہر نہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ اسرائیل پر ہونے والی تنقید کو یہود دشمنی قرار دے دیا جاتا۔
یہ بھی پ۔رھئے: پوپ فرانسس نےاسرائیل کے ذریعے غزہ میں بچوں کے ظالمانہ قتل عام کی مذمت کی
واضح رہے کہ مارٹنگ گاک نے ڈوشے ویلے میں ۱۰؍سال مذہبی امور کے نمائندے اورجنگ زدہ زون کے سینئر پروڈیوسر کے طور پر گزارے،انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ دباؤ شدید اور مستقل تھا، جس کے سبب انہوں نے ادارے کو خیر باد کہہ دیا۔ مارٹنگ نے مزید کہا کہ ’’ صحافتی نقطہ نظر سے، ڈوشے ویلے میں پریس کی آزادی، اظہار کی آزادی، ضمیر کی آزادی جیسے عظیم تصورات، محض جملے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایک اور ملازم نے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ وہ اسرائیلی حملے کی رپورٹ تیار کر رہا تھا، جس میں ایک بچہ روتے ہوئے بتا رہا تھا کہ کس طرح وہ اور اس کے والد نے اس کے چچا کو زخمی حالت میں اٹھایا جبکہ ان کا آدھا سر اسرائیلی حملے میں پھٹ چکا تھا،لیکن نیوز روم میں اس فوٹیج کو استعمال کرنے سے روک دیا گیااور ایگزیکٹیو نے کہا کہ ’’ ہم یہ کیسے ثابت کریں گے کہ بچہ اداکاری نہیں کر رہا ہے۔‘‘حالانکہ نیوز روم میں اکثر ملازمین کو یقین تھا کہ بچہ حقیت بیان کر رہا ہے، نہ کہ اداکاری کر رہا ہے۔