ہندو رکشا دل کے سربراہ اور حامیوں نے غازی آباد کے کچی بستی میں رہائش پذیرخواتین، بچوں اور بوڑھوں کو بھی زدوکوب کیا۔ مسلمانوں کی جھوپڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ علاقے کے مکینوں میں صرف مسلمان خاندانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
EPAPER
Updated: August 12, 2024, 6:42 PM IST | Ghaziabad
ہندو رکشا دل کے سربراہ اور حامیوں نے غازی آباد کے کچی بستی میں رہائش پذیرخواتین، بچوں اور بوڑھوں کو بھی زدوکوب کیا۔ مسلمانوں کی جھوپڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ علاقے کے مکینوں میں صرف مسلمان خاندانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
گزشتہ ہفتے، ہندو دائیں بازو کی ایک تنظیم، ہندو رکشا دل کے لوگ لکڑی اور ہاکی اسٹیک کے ساتھ ایک کچی آبادی میں گھس گئے۔ ۱۳؍ لوگوں کایہ گروپ تقریباً ہر خیمے میں جا کر رہائشیوں کی مذہبی شناخت پوچھتا تھا جس کے بعد گروپ نے تقریباً۲۰۰؍ جھونپڑیوں میں سے چار مسلم خاندان پر حملہ کیا۔ ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ بہت غصے میں تھے، سب کے گھر گئے اور پوچھا کہ وہ مسلمان ہیں یا ہندو، ہندوؤں کو انہوں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا جبکہ مسلمانوں کو بے دردی سے مارا گیا۔
۹؍ اگست کی رات کو ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ ویڈیو میں غازی آباد کے گلدھر میں لوگوں کو لاٹھیوں سے خیموں میں توڑ پھوڑ کرتے، لوگوں کو مارتے اور ان کے سامان کو آگ لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ کچی آبادی کا علاقہ گلدھر ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے اور یہاں سیکڑوں افراد رہتے ہیں جبکہ اس علاقے میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے۔ اسی علاقے میں چار ایسے مسلم خاندان بھی تھے جو اکثر روزی روٹی کیلئے اس علاقے کا رخ کرتے تھے۔ حملہ آور ہجوم کو اسلامو فوبک گالیوں کا استعمال کرتے ہوئے اور ان مسلمانوں کو گالی دیتے ہوئے سنا گیا جن پر وہ حملہ کر رہے تھے۔ حملہ آوروں میں ہرعمر کے افراد تھے۔ ایک گواہ نے بتایا کہ انہوں نے کسی کو نہیں بخشا۔ انہوں نے تمام مسلم خاندانوں کو تشدد کا نشانا بنایا۔ ہم نے مداخلت کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے ہم پر لاٹھی سے حملہ کیا۔ ہندو پڑوسیوں کی طرف سے جب مشتعل ہجوم کو رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تو ہجوم کے لوگ انہیں دھمکی دیتے اور کہتے تھے کہ آپ ایک ہندو کی حیثیت سے مسلمانوں کی مدد کر رہے ہیں۔ آپ کو ہمارے ساتھ مل کر انہیں مارنا چاہئے تھا۔ دور رہو ورنہ ہم تمہیں بھی ماریں گے۔ عینی شاہدین کے مطابق اگلے دن مسلمان متاثرین اس جگہ سے چلے گئے تھے۔
واضح رہے کہ جب بنگلہ دیش کی وزیر اعظم۵؍ اگست کو ڈھاکہ سے فرار ہوئیں تو ملک میں ہندوؤں پر ہجوم کے حملے کے بارے میں آن لائن بہت سی رپورٹس منظر عام پر آئیں۔ ہندوستان کا دائیں بازو کا سوشل میڈیا ایک بار پھر ملک کی مسلم اقلیت کے خلاف نفرت انگیز تقاریر سے بھر گیا۔ ہندوستانی میڈیا نے بھی بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ہونے والے حملوں کو مذہبی محرکات کے طور پر پیش کرکے اپنا کردار ادا کیا۔
یہ بھی پڑھئے: ادیشہ: بنگلہ دیش کے بہانے انتہا پسند ملک کے بنگالی مسلمانوں کو ہراساں کررہے ہیں
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی زہر افشانی
۵؍اگست کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈر کپل مشرا نے ایکس پر لکھا’’آج جہادی ہجوم بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملہ کر رہے ہیں۔ یہ جہادی ہجوم ہر ذات کے ہندوؤں پر بلا تفریق حملہ کرے گا۔ ۱۴۰۰؍ سالہ تاریخ گواہ ہے کہ آپ کی ذات آپ کو جہادی ہجوم سے کبھی نہیں بچا سکے گی۔ اسی طرح ایک اور بی جے پی ایم پی، کنگنا رناوت نے ایکس پر پوسٹ کیا’’پُرامن ہوا سورج کی روشنی نہیں ہے جسے آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا پیدائشی حق ہے اور وہ آپ کے پاس مفت آئے گی، اپنی تلواریں اٹھاؤ اور انہیں تیز رکھو، ہر روز کسی نہ کسی جنگی شکل کی مشق کرو۔ اگر زیادہ نہیں تو روزانہ۱۰؍ منٹ اپنے دفاع کیلئے دو۔
ایک اور ویڈیو میں، کچی بستی میں حملے سے ایک دن پہلے، اس گروپ کو دہلی کے شاستری نگر میں مسلمانوں پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا، وہ لوگ انہیں بنگلہ دیشی کہہ رہے تھے۔ ویڈیو میں، دائیں بازو کے گروپ کے دکش چودھری کو اسٹیک اٹھائے اور مکینوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ وہ ویڈیو میں چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اپنے بنگلہ دیش واپس جاؤ۔ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے ایک بار پھر ہندوستانی مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ہجوم کہہ رہا تھا کہ اگر وہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملہ کرنا بند کر دیں تو ہم یہاں کے مسلمانوں پر حملہ کرنا بند کر دیں گے۔ دوسرے گواہ نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ وہ بدلہ لے رہے ہیں۔ عینی شاہد کے مطابق اس رات، ایک گھنٹہ سے زیادہ خوفناک منظر دیکھنے کے بعد کچی بستی میں شاید ہی کوئی سویا ہو۔ انہوں نے خواتین یا شیر خوار بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ انہیں بے دردی سے پیٹا گیا۔ جب پولیس بھی کچھ نہیں کر سکتی تو ہم کیا کر سکتے تھے؟ اس نے مزید کہا کہہم اب بھی خوفزدہ ہیں اور ہم میں سے کچھ خوف کی وجہ سے رات کو بھی نہیں سوتے ہیں۔ اگر وہ واپس آجائیں تو کیا ہوگا؟پڑوسیوں نے کہا کہ مسلمانوں پر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام ہے۔ تاہم، ان کا تعلق اتر پردیش سے تھا۔
غازی آباد پولیس نے بھی کہا کہ کچی بستی میں حملہ کرنے والے بنگلہ دیشی نہیں بلکہ ہندوستانی تھے۔ تحقیقات کے دوران یہ پتہ چلا کہ بنگلہ دیشی کچی بستی میں رہائش پذیر نہیں تھے۔ رہائشیوں کا تعلق اتر پردیش کے شاہجہاں پور سے ہے۔ لہٰذا، کچی بستی میں توڑ پھوڑ اور آگ لگانے والوں کے خلاف مقامی پولیس اسٹیشن میں متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔