برطانیہ میں نوجوان لڑکیوں کے جنسی استحصال کا معاملہ سب سے پہلے ۲۰۰۰ء کی دہائی کے بعد توجہ کا مرکز بنا۔اگرچہ پاکستانی مسلمان مردوں پر سنگین جنسی استحصال کے مقدمات درج ہیں، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ ان جرائم کے واحد مرتکب تھے۔
EPAPER
Updated: April 19, 2025, 10:24 PM IST | Inquilab News Network | Washington / London
برطانیہ میں نوجوان لڑکیوں کے جنسی استحصال کا معاملہ سب سے پہلے ۲۰۰۰ء کی دہائی کے بعد توجہ کا مرکز بنا۔اگرچہ پاکستانی مسلمان مردوں پر سنگین جنسی استحصال کے مقدمات درج ہیں، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ ان جرائم کے واحد مرتکب تھے۔
امریکی ارب پتی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے چیئرمین ایلون مسک کیلئے اپنی ہی کمپنی ایکس اے آئی کا تیار کردہ چیٹ بوٹ ان کیلئے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ گزشتہ دنوں مسک نے ایکس پر ایک ویڈیو پوسٹ کیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ برطانیہ میں گزشتہ ۲۵ سالوں میں مسلمان مردوں نے ڈھائی لاکھ سے زائد سفید فام برطانوی لڑکیوں کی عصمت دری کی ہے۔ گروک نے اس ویڈیو کی حقیقت کی جانچ کی اور اس دعوے کو بے بنیاد قرار دے دیا۔
دو دن قبل، مسک نے یہ دعویٰ اپنے ایکس اکاؤنٹ سے شیئر کیا جو انتہائی دائیں بازو کی یونائٹیڈ کنگڈم انڈیپینڈنس پارٹی (یو کے آئی پی) کے رکن مالکم پیئرسن نے ہاؤس آف لارڈز میں اپنی تقریر میں کیا تھا۔ پیئرسن نے کہا تھا، "اگر ہم قومی سطح پر اندازہ لگائیں، تو اس صدی میں ۲ لاکھ ۵۰ ہزار سے زائد جوان سفید فام لڑکیوں کے ساتھ ریپ ہوا ہے۔ یہ واقعات بہت بڑی تعداد میں مسلمان مردوں کے ہاتھوں پیش آئے ہیں اور چونکہ یہ لڑکیاں عام طور پر برسوں تک دن میں کئی بار ریپ کا شکار ہوتی ہیں، تو اس مسئلہ پر حکومت کا جواب کیا ہے؟" انہوں نے مزید کہا، "اس بات کا وسیع امکان ہے کہ یہ گرومنگ گینگ (جنسی استحصال کرنے والا گروہ) ملک کے ہر بڑے شہر میں سرگرم ہے۔ حکومت ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے؟ ملک میں ایک اتھارٹی ایسی رہی ہے جس نے اس سب واقعات کو نظر انداز کیا کیونکہ وہ اسلامو فوبیا کے الزام کو اپنے سر لینے سے ڈرتی تھی۔ وہ ان متاثرین کو ذہنی طور پر معاوضہ دینے کیلئے کیا کر رہی ہے؟"
واضح رہے کہ برطانیہ میں نوجوان لڑکیوں کے جنسی استحصال کا معاملہ سب سے پہلے ۲۰۰۰ء کی دہائی کے بعد توجہ کا مرکز بنا۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی مسلمان مردوں پر سنگین جنسی استحصال کے مقدمات درج ہیں، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ ان جرائم کے واحد مرتکب تھے اور بیشتر جرائم انہوں نے ہی انجام دیئے ہیں۔ برطانیہ کے انتہائی دائیں بازو کی پارٹیوں اور مسک جیسے غیر ریاستی عناصر نے گزشتہ چند مہینوں میں ان اسکینڈلز کو اجاگر کیا ہے تاکہ ملک کی حکمران پارٹی کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے۔
گروک نے ان دعوؤں کو جھٹلا دیا
جب گروک سے اس ویڈیو میں کئے گئے دعووں کی حقیقت کی جانچ کرنے کیلئے کہا گیا تو اے آئی چیٹ بوٹ نے ایک طویل مضمون تحریر کیا جس کے آخر میں اس نے لکھا، "ویڈیو میں کیا گیا دعویٰ درست نہیں ہے۔ ڈھائی لاکھ کا نمبر شمار ایک ناقابل اعتماد تخمینہ ہے اور ۹۰ فیصد سے زائد ریپ میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کا دعویٰ بے بنیاد ہے جس کا ثبوت موجود نہیں ہے۔ اگرچہ پاکستانی نژاد مردوں سے متعلق گرومنگ گینگ کے معاملات دستاویزی طور پر موجود ہیں لیکن یہ بچوں کے جنسی استحصال کا ایک ذیلی حصہ ہیں، اس میں تمام عصمت دری یا بدسلوکی کے معاملات کی اکثریت شامل نہیں۔ مجرموں کی نسل یا مذہب کے بارے میں قابل اعتماد قومی ڈیٹا محدود ہے اور یہ دعویٰ ایک پیچیدہ مسئلے کو ضرورت سے زیادہ سادہ کر دیتا ہے۔ درست معلومات کیلئے، آئی آئی سی ایس اے (۲۰۲۲ء) یا دفتر داخلہ کی اشاعتوں اور رپورٹس کو پڑھیں۔"
یہ بھی پڑھئے: مسلمانوں نے نریندر مودی کے "پنکچر لگانے" والے طعنہ کا جواب فخریہ انداز میں دیا
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مسک کے اے آئی چیٹ بوٹ نے خود انہی کے دعوؤں کی تردید کی ہو۔ مارچ میں، مسک نے کہا تھا کہ غیر قانونی تارکین وطن نیویارک میں ووٹ دے سکتے ہیں۔ گروک نے ان کے اس دعوے کو غلط قرار دیا تھا۔ واضح رہے کہ گروک غلطیوں سے پاک نہیں ہے، وہ بھی غلطیاں کرتا ہے۔ حال ہی میں، ایلون مسک کے اے آئی چیٹ بوٹ نے مبینہ طور پر امریکی گلوکارہ و نغمہ نگار ٹیلر سوئفٹ کو تیسرے درجے کی صحافی کے طور پر شناخت کیا تھا۔ گروک کی اس غلطی سے انٹرنیٹ صارفین ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے تھے۔