Inquilab Logo Happiest Places to Work

مسلمانوں نے نریندر مودی کے "پنکچر لگانے" والے طعنہ کا جواب فخریہ انداز میں دیا

Updated: April 18, 2025, 6:09 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

مسلم سماج کا یہ ردعمل نہ صرف مودی کے تبصرے کے خلاف ایک طنزیہ جواب تھا بلکہ اس نے مسلم سماج کی متنوع صلاحیتوں اور کامیاب افراد کو بھی اجاگر کیا، جو ایک توہین آمیز بیان کو چیلنج کرنے کیلئے فخر اور مزاح کا سہارا لیتے ہیں۔

Photo: X
تصویر: ایکس

ہندوستان کے مسلمانوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے "پنکچر بنانے والے" توہین آمیز تبصرے کا جواب بے باکی، فخر اور دلیری کے ساتھ دیا ہے۔ وزیراعظم کے سطحی تبصرے پر غم و غصّہ کا اظہار کرنے کی بجائے سوشل میڈیا پر مسلمانوں نے اس کا دلچسپ انداز میں جواب دیا اور فخر اور مزاح سے بھرپور پوسٹ کرکے لوگوں کے دل جیت لئے۔ 

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ۱۴ اپریل کو ہریانہ کے ہسار میں ایک ریلی کے دوران مودی نے بیان دیا تھا کہ وقف املاک کے غلط استعمال کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کو سائیکل کے پنکچر بنانے جیسے کام کرنے پڑ رہے ہیں۔ مودی کے اس تبصرے کے بعد سوشل میڈیا مسلمانوں کیلئے عزت نفس اور دلیری کے مظاہرے کا پلیٹ فارم بن گیا۔  

ایک مسلمان مورخ نے لیکچر دیتے ہوئے اپنی ایک تصویر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کی اور لکھا، “بس کچھ نہیں، ہندوستانی تاریخ کے پنکچر ٹھیک کر رہا ہوں۔” ایک اور صارف نے ایک کانفرنس روم میں خطاب کرتے ہوئے اپنی تصویر شیئر کی اور اس کے ساتھ لکھا، “بس کچھ نہیں، اپنے پنکچر کے کاروبار کو بہتر بنانے کی پریزنٹیشن دے رہا ہوں۔” ایک صارف نے میزائلوں کے ساتھ اپنی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا، " کچھ نہیں بس، میزائلوں میں پنکچر لگا رہا ہوں۔"

یہ بھی پڑھئے: عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے اردو کو نئی قانونی طاقت ملی ہے: مولانا خالد رشید فرنگی محلی

مسلم پیشہ ور افراد کا واضح جواب

مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مسلم پیشہ ور افراد نے وزیراعظم کے طنز کے سب سے واضح جوابات دیئے اور سوشل میڈیا پر اس تبصرے کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی حقیقت پیش کی۔ نعروں یا تقاریر کے بغیر، انہوں نے ڈاکٹرز، کنسلٹنٹس، انجینئرز اور اساتذہ کے طور پر اپنی حقیقت کو طنزیہ انداز میں دکھانے کا انتخاب کیا۔ ایک صارف نے ان جذبات کو یوں سمیٹا، “بس کچھ نہیں، سطحی باتوں کا پنکچر بنا رہا ہوں۔”

ڈاکٹرز، کاروباری افراد، انجینئرز اور فنکاروں نے بھی ایکس پر جاری اس طنزیہ ٹرینڈ میں حصہ لیا۔ ایک سرجن نے آپریشن تھیٹر میں اپنی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا، “او ٹی میں خصوصی پنکچر ریپیئر۔” ایک لگژری کار کے مالک نے اپنی آڈی کی تصویر پوسٹ کی اور لکھا، “اپنی پنکچر ریپیئرنگ شاپ کی طرف جا رہا ہوں۔”

مسلم سماج کا یہ ردعمل نہ صرف مودی کے تبصرے کے خلاف ایک طنزیہ جواب تھا بلکہ اس نے مسلم سماج کی متنوع صلاحیتوں اور کامیاب افراد کو بھی اجاگر کیا، جو ایک توہین آمیز بیان کو چیلنج کرنے کیلئے فخر اور مزاح کا سہارا لیتے ہیں۔ ایکس اور انسٹاگرام پر وسیع پیمانے پر وائرل ہوئے اس ٹرینڈ میں طنز اور خود اعتمادی کا امتزاج دکھائی دیا۔ بہت سے صارفین نے اسے ایک حقارت آمیز تبصرے کے جواب میں اجتماعی شناخت کی بحالی قرار دیا۔

یہ بھی پڑھئے: دہلی میں بھی یوپی والا اصول نافذ، بغیر اجازت لاؤڈاسپیکر کے استعمال پر جرمانہ

حزب اختلاف کا ردعمل

وزیراعظم مودی نے اپنے بیان میں وقف وقف (ترمیمی) ایکٹ، ۲۰۲۵ء کی حمایت کی جسے اس ماہ کے شروع میں پارلیمنٹ نے منظور کرلیا تھا۔ مودی نے وقف املاک کے نام نہاد غلط استعمال کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی وجہ سے مسلم نوجوان بہتر مواقع سے محروم رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، “اگر ان املاک کا خلوص سے استعمال کیا جاتا تو مسلم نوجوانوں کو روزی روٹی کمانے کیلئے سائیکل کے پنکچر بنانے کی ضرورت نہ پڑتی۔”

اپوزیشن لیڈران نے مودی کے اس تبصرے کی شدید مذمت کی۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسدالدین اویسی نے کہا کہ قانون میں ترمیم سے وقف ادارے مزید کمزور ہو جائیں گے نہ کہ مسلم سماج بااختیار بنے گا۔ انہوں نے ایکس پر لکھا، “وقف املاک کی اس حالت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ قانون اور اس کا انتظام ہمیشہ کمزور رکھا گیا۔ مودی کی ترمیم اسے مزید خراب کرے گی۔”

کئی ناقدین نے وزیراعظم پر الزام لگایا کہ وہ ایک ایسے وقت میں مسلمانوں کے بارے میں سطحی باتوں کو تقویت دے رہے ہیں جب روزگار اور تعلیم کے مواقع کی کمی تمام مذاہب کے شہریوں کو متاثر کر رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان کے ۳۰ فیصد سے زائد نوجوان فی الحال نہ تو برسر روزگار ہیں، نہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اور نہ ہی کوئی تربیت لے رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK