Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ سیاسی وجوہات کیلئے نفرت انگیز تقاریر انتہائی تشویشناک ہیں‘‘

Updated: April 12, 2025, 12:04 PM IST | New Delhi

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اے ایس اوکا نےملک میں نفرت انگیز تقاریر پربرہمی کا اظہارکیا،کہا’’ ہندوستان میں زیادہ تر نفرت انگیز تقاریر مذہبی اقلیتوں یا ذاتوں کے خلاف ہوتی ہیں جوکہ درج فہرست ذاتوں کی طرح مظلوم اور دباکچلاطبقہ ہے‘‘

Justice Abhay S. Oka. Photo: INN
جسٹس ابھے ایس اوکا۔ تصویر: آئی این این

:سپریم کورٹ کے جج جسٹس اے ایس اوکا نےملک میں نفرت انگیز تقاریر پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ ترمعاملوں میں یہ مذہبی اقلیتوں یا ذاتوں کے خلاف کی جاتی ہیں۔انہوں نے سیاسی وجوہات کی بنا پر نفرت انگیز تقاریر کا ذکر کرتےہوئے اس کو انتہائی تشویشناک قرار دیا۔جسٹس اوکا نے کولمبیا لا اسکول کےطلبہ سےورچوئل خطاب میں  ملک میں نفرت انگیز تقاریر کے معاملہ کو اٹھاتے ہوئے کہاکہ آئین کے ۷۵؍سال مکمل ہونے کےباوجودملک میں نفرت انگیز تقاریر کی بہت سی مثالیں ہیں۔
 جسٹس اوکا کے مطابق ہندوستان میں زیادہ تر نفرت انگیز تقاریر مذہبی اقلیتوں یا ذاتوں کے خلاف ہوتی ہیں جوکہ درج فہرست ذاتوں کی طرح  مظلوم اور دباکچلاطبقہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیں تاکہ مذہبی اقلیتوں پر حملہ کرنےکیلئے اکثریتی طبقہ کو اکسایا جائے۔انہوںنےمزیدکہاکہ اگر ان نفرت انگیز تقاریر کے تعزیری پہلو کو الگ بھی کردیاجائے تب بھی بنیادی طور پر، یہ تقریریں سماجی ہم آہنگی کو بگاڑتی ہیں۔جولوگ ہندوستان میں نفرت انگیز تقریر کے انداز کا بہت منظم طریقے سے مطالعہ کر رہے ہیں، وہ آپ کو بتا سکیں گے کہ نفرت انگیز تقاریر کی سیاسی وجوہات ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: نیویارک میں ہیلی کاپٹر کا دردناک حادثہ، سیمنس کمپنی کے سی ای او اہلیہ اور ۳؍ بچوں سمیت ہلاک

جسٹس اوکا نے کہاکہ یہ ممکن ہے کہ کچھ سیاسی رہنما، انتخابی سیاست میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے، ووٹ حاصل کرنے کے لیے، نفرت انگیز تقاریر میں ملوث ہوں، لیکن یہ مطالعہ کی بات ہے اور اس کے لیے مطالعہ کی ضرورت ہے کیونکہ ہم ہمیشہ یہ مانتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک صحت مند جمہوریت ہونی چاہئے اور اگر ایک صحت مند جمہوریت میں، سیاسی عناصر نفرت انگیز تقاریر کا استعمال کرتے ہیں تو یہ انتہائی تشویشناک بات ہے۔ جسٹس اوکا نے نفرت انگیز تقاریر اور اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر چند افراد یا گروپس کو لگتا ہے کہ کسی نے نفرت انگیز تقریر کی ہے ،تومحض اس بنیاد پر یہ نفرت انگیز تقریرنہیں بن جائے گی۔ اس کے بارے میں فیصلے موجود ہیں کہ یہ نفرت انگیز تقریر کیا ہوگی کیونکہ اگر ہم انفرادی تصور کے مطابق چلتے ہیں تو ہم ایک مخصوص تقریر کو نفرت انگیز تقریر کے طور پر دیکھنا شروع کردیں گے اور ہم اسے ہی  نفرت انگیز تقریر قرار دیں گے۔ اس سے تقریر اور اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق پر سمجھوتہ ہوجائےگا۔انہوںنے اس بات پر بھی زور دیا کہ عدالتوں کو نفرت انگیز تقاریرکےمعاملوں سےنپٹتے ہوئے قوانین کی تشریح اس انداز میںکرنی چاہیے جس سے اظہار خیال کی آزادی پر کوئی حرف نہ آئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK