پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ کے ذریعے چند دن قبل الیکشن کمیشن کو ایڈوکیٹ محمود پراچا کو حالیہ انتخابات سے متعلق دستاویز فراہم کرنے کے احکامات جاری کئے گئے تھے۔ لیکن مرکزی حکومت نے انتخابی عمل کے قوانین میں تبدیلی کرکے اب ان دستاویز تک رسائی پر روک لگا دی۔ اس اقدام کی تمام سیاسی پارٹیوں نے مذمت کی ہے۔
چند دن قبل ہائی کورٹ نے الیکشن کمیش کو احکامات جاری کرکے عرضی گزار کو انتخابی دستاویز فراہم کرنے کیلئے کہا تھا۔مرکزی حکومت نے انتخابی طرز عمل کے قوانین میں ہی تبدیلی کردی۔جس کے تحت انتخابات سے متعلق تمام کاغذات کا عوام کے ذریعے معائنہ نہیں کیا جا سکے گا۔مرکزی حکومت نے جمعہ کو انتخابی ضابطوں میں ترمیم کی ہے کہ عوام کے ذریعہ انتخاب سے متعلق تمام دستاویزات تک رسائی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔اس سے قبل ۱۹۶۱ء کے کنڈکٹ آف الیکشن رولز کے پہلے رول ۹۳؍ (۲) (اے) میں کہا گیا تھا کہ انتخابات سے متعلق دیگر تمام کاغذات عوامی معائنہ کیلئے کھلے ہوں گے۔‘‘ لیکن اس تبدیلی کے بعدعوام صرف ان کاغذات کا معائنہ کر سکتے ہیں جن کا انتخاب کنڈکٹ آف الیکشن رولز میں کیا گیا ہے۔اسی کے ساتھ عدالتیں بھی پول پینل کو عوام کو الیکشن سے متعلق تمام کاغذات فراہم کرنے کی ہدایت نہیں دے سکیں گی۔
یہ بھی پڑھئے: ’’آئین کو کمزور کرنے سے ملک کمزور ہو گا اور شہریوں میں بے اطمینانی بڑھے گی‘‘
واضح رہے کہ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے ۹؍دسمبر کو الیکشن کمیشن کو محمود پراچا کی وکالت کیلئےہریانہ کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے دوران انتخابی مرکز پر پولنگ کے ووٹوں سے متعلق ویڈیو گرافی، سیکیورٹی کیمرے کی فوٹیج اور دستاویزات کی کاپیاں فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی۔الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار نے کہا کہ ہم انتخابات سے متعلق کاغذات کے عوامی معائنہ کو منظم کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے،اب چونکہ قانون میں ترمیم کی جا چکی ہے ہم نے ہائی کورٹ کو مطلع کر دیا ہے۔حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ایڈوکیٹ محمود پراچا نے اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ جمہوریت اور بابا صاحب کے آئین کو بچانے کیلئےہمیں ایک ناہموار زمین پر کھیلنے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے۔ منووادی طاقتیں ہمیشہ سے امبیڈکر وادیوں کو دبانے کیلئے غیر اخلاقی اور غیر منصفانہ طریقہ کار استعمال کرتی ہیں، وہ جب بھی ہارتے ہیں، گول پوسٹ ہی تبدیل کر دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس ان غیر جمہوری اور فاشسٹ طاقتوں کو شکست دینےکیلئے اپنی قانونی حکمت عملیوں سمیت اپنے طریقے ہیں۔ ‘‘
ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن نے پراچا کی عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ پراچا اکتوبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں امیدوار نہیں تھے، اس لیے وہ الیکشن سے متعلق دستاویزات نہیں مانگ سکتے۔لیکن پراچا نے دلیل دی کہ امیدوار اور کسی دوسرے شخص کے درمیان صرف یہ فرق ہے کہ کاغذات الیکشن لڑنے والے امیدوار کو مفت فراہم کرنا ہوتا ہے، جبکہ کسی دوسرے شخص کو کاغذات فراہم کرنے کیلئے فیس کی ادائیگی مشروط ہے۔عدالت نے پراچا کی اس دلیل کو قبول کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کوتمام معلومات فراہم کرنے کے احکامات جاری کئے۔
یہ بھی پڑھئے: پارلیمنٹ کے ہنگامہ خیز سرمائی اجلاس کا اختتام، سرکار اور اپوزیشن میں جم کرجھڑپیں
مرکزی حکومت کے ذریعے معلومات کی فراہمی روکنے کیلئے قانون سازی پر مختلف سیاسی پارٹیوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے کہا کہ الیکشن کمیشن شفافیت سے اتنا خوفزدہ کیوں ہے؟ ساتھ ہی انہوں نے حکومت کے اس اقدام کو چیلنچ کرنے کا عندیہ دیا۔عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ضابطوں میں تبدیلی کا مطلب ہے کہ بہت کچھ غلط ہے۔ جبکہ ترنمول کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ جوہر سرکار نے پوچھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت کیا چھپا رہی ہے۔انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے سوال کیا کہ ’’مودی اور الیکشن کمیشن کا اتحاد اتنا خوفزدہ ہے کہ جیسے ہی ہائی کورٹ نے مداخلت کی، انہوں نے حقوق ہی چھین لیے۔ ‘‘