Inquilab Logo Happiest Places to Work

اُردو سے متعلق تاریخ ساز فیصلہ سید برہان اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے

Updated: April 17, 2025, 1:15 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

۱۵؍ اپریل کو سپریم کورٹ کی جانب سے اُردو کے حوالے سے سنایا گیا فیصلہ اپنے آپ میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔

Syed Burhan Syed Nabi. Photo: INN
سید برہان سید نبی۔ تصویر: آئی این این

۱۵؍ اپریل کو سپریم کورٹ کی جانب سے اُردو کے حوالے سے سنایا گیا فیصلہ اپنے آپ میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس فیصلے کی بازگشت برسوں نہیں بلکہ صدیوں تک سنائی دے گی اورجب بھی اردو کے تعلق سے تعصب کا رویہ اختیار کیا جائےگا، اس فیصلے کو ایک نظیر کے طورپر پیش کیا جائے گا لیکن یہ فیصلہ یوں ہی نہیں آگیا بلکہ اس کے پیچھے پاتور میونسپل کونسل کے سابق  صدر بلدیہ سید برہان سید نبی اور ان کے ساتھیوں کی مسلسل جدوجہد اور کوششیں  رہی ہیں۔
 سید برہان سید نبی پاتور میں واقع ’شاہ بابو اردو ہائی اسکول اینڈ کالج‘ کی مجلس انتظامیہ کے سربراہ بھی ہیں۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران مہاراشٹرکی بیشتر میونسپل کونسلوں اور کارپوریشنوں کی میعاد ختم ہو گئی ہے اور اس کے بعد سے وہاں انتخابات نہیں ہو رہے ہیں۔ انہیں میونسپل کونسلوں میں سے ایک پاتور کی میونسپل کونسل بھی ہے۔ ۲۰۲۲ء میں میعاد ختم ہونے سے قبل سید برہان سید نبی نہ صرف پاتور میونسپل کونسل کے رکن تھے بلکہ کانگریس پارٹی کے گروپ لیڈر بھی تھے۔  پاتور شہر میں ان کی مقبولیت اور ان کے اثر و رسوخ کااندازہ اس با ت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۹۵۔۱۹۹۴ء میں انہوں نے میونسپل کونسل کا پہلا الیکشن لڑا، کارپوریٹر منتخب ہوئے اور اپنی پہلی ہی میقات میں صدر بلدیہ بھی منتخب ہوگئے۔ اُس وقت ان کی عمر صرف ۴۰؍ سال تھی۔جس وقت پاتور میونسپل کونسل کی عمارت پر لگے سائن بورڈ کا معاملہ اُٹھا اور اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی، اُس وقت سید برہان میونسپل کونسل میں کانگریس پارٹی کے گروپ لیڈر تھے۔

یہ بھی پڑھئے:حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی!

اُردو سائن بورڈ کامعاملہ کب اٹھا؟ کس نے اٹھایا؟ اور انہوں نے اس کی لڑائی کہاں کہاں اورکس طرح لڑی؟ اس تعلق سے انہوں نے ’انقلاب‘ سے گفتگو کی اور اپنی جدوجہد کی داستان بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ ’’پاتور میونسپل کونسل کی بنیاد ۱۹۵۶ء میں پڑی تھی۔ اُس وقت ہی سے میونسپل کونسل کی عمارت پر مراٹھی کے ساتھ ہی اُردو کا بورڈ لگایا جاتا رہا ہے۔ کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا لیکن ۲۰۱۴ء میں ملک کے سیاسی حالات بدلے تو یہاں کی سیاسی فضا بھی مکدر ہوئی اور لوگ ہندو مسلمان کے ساتھ ہی مراٹھی اردو بھی کرنے لگے۔ ‘‘ انہوں نے بتایا کہ ’’۲۰۲۰ء میں میونسپل کونسل کی نئی عمارت وجود میں آئی تومیونسپل کونسل کی جنرل کمیٹی نے۱۴؍ فروری ۲۰۲۰ء کوایک قرارد اد منظور کی کہ کونسل کی نئی عمارت پرلگنے والے بورڈ پر بھی مراٹھی کے ساتھ اُردو میں بورڈ ہوگاکیونکہ آئین کے شیڈول آٹھ کے تحت اردو کا بورڈ لگانے کی اجازت ہے۔ملک اور ریاست کے  بدلتے سیاسی ماحول کے پیش نظرہی ہم نے اس قرار داد کی ضرورت محسوس کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس قرار داد میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا تھا کہ میونسپل کونسل کی کارروائی اور افسران کے نام زبان مراٹھی میں رہیں۔ ‘‘
 سید برہان نے بتایا کہ ’’میونسپل کونسل کا یہ فیصلہ بی جے پی اور اس کی ایک کونسلرمسز ورشا تائی باگاڈے کو پسند نہیں آیا۔ انہوں  نے اس فیصلے کو دفعہ۳۰۸؍ کے تحت ضلع  کلکٹر کے یہاں چیلنج کر دیا۔ ضلع کلکٹر نے ورشا تائی کی اپیل منظور کرلی اور قرار داد کو منسوخ کرتے ہوئے فیصلہ  دیا کہ بورڈ صرف مراٹھی میں لکھا جائے۔ یہ فیصلہ ہمارے لئے ایک بڑا جھٹکا تھا لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور اس فیصلے کے خلاف اپنے ساتھی کارپوریٹرس کی مدد سے امراوتی میںکمشنر کی عدالت میں اپیل دائر کی جہاں فیصلہ  ہمارے حق میں ہوا۔  اس کے بعد ورشا تائی باگاڈے نے ناگپور ہائی کورٹ کا رخ کیا اور کمشنر کے فیصلے کی مخالفت کی۔ ہائی کورٹ نے  ان کی عرضی خارج کردی۔ اس کے بعد  ۲۰۲۳ء میں  ہائی کورٹ کے فیصلے کو انہوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اس فیصلے کے دفاع کیلئے سپریم کورٹ تک جانا ہمارے لئے آسان نہیں تھا۔ وہ ایک وقت طلب، خرچ طلب  اور ہمت طلب کام تھا لیکن ہم نے سپریم کورٹ میں فیصلے کے دفا ع کا عزم کیا۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو دیکھنے کے بعد اس معاملے کو ’مراٹھی لینگویج ڈسٹرکٹ کمیٹی‘ کو منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے کو ختم کردیا۔‘‘
 سید برہان نے انقلاب کو بتایا کہ ’’اس فیصلے کے بعد بھی ہمارے  لئے فوری طور پر راحت کی کوئی بات نہیں تھی۔ورشا تائی باگاڈے نے ایک بارپھرہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اس مرتبہ مہاراشٹر حکومت کے ساتھ ہی ضلع کلکٹر اور کمشنر کو بھی فریق بناکر پیش کیا۔بی جے پی لیڈر کی یہ دلیل تھی کہ ریاستی حکومت نے تمام سرکاری اورعوامی دفاتر پر مراٹھی میں بورڈ لگانے کی ہدایت دی ہے،اسلئے اُردو میں بورڈ قبول نہیں ہے لیکن ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے اس دلیل کو مسترد کردیا کہ ریاستی حکومت کے فیصلے  میں کہیں بھی یہ بات درج نہیں ہے کہ بورڈ صرف مراٹھی میں ہو اور اس کے ساتھ کوئی اور زبان میں نہ ہو۔اس کے بعد باگاڈے نے اس فیصلے کو ایک بار پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جہاں آج یعنی ۱۵؍ اپریل کو ایک تاریخ ساز فیصلہ ہمارے سامنے آیا۔‘‘
    اس فیصلے کے بعد وہ کیا محسوس کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ’’اس فیصلے کے اثرات ان شاء اللہ دوررس ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج نے اپنے فیصلے میں اردو زبان کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ اردوکسی مذہب کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس فیصلے کے بعد فرقہ پرست طاقتیں خاموش نہیں بیٹھیں گی بلکہ وہ کوئی اور نکتہ تلاش کریں گی ،اسلئے ہمیں بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK