Updated: August 14, 2024, 11:25 PM IST
| New Delhi
ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ ’’وزیراعظم نریندر مودی نے امسال اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف نفرت پر مبنی تقریروں کا سہارا لیا تھا۔ الیکشن میں بی جے پی نے تیسری مرتبہ قیادت حاصل کرنے کیلئے انتخابی مہم کے دوران مسلسل ایسی تقریریں کیں جو پسماندہ طبقات کے خلاف تشدد، امتیاز اور دشمنی کو ہوا دیتی ہیں۔
نریندر مودی ایک تقریر کے دوران۔ تصویر: آئی این این
انٹرنیشنل رائٹس واچ ڈاگ ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ نے کہا ہے کہ ’’نریندرمودی نے ۲۰۲۴ء کے انتخابی مہم کیلئے مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف نفرت پر مبنی تقریروں کا استعمال کیا تھا۔ ادارے نے مزید کہا ہے کہ ’’ہندوؤں کی اکثریت والی بی جے پی نے تیسری مرتبہ قیادت حاصل کرنے کیلئے انی انتخابی مہم ، جس کاآغا ز۹؍ جون کو ہوا تھا، کے دوران مسلسل ایسی تقریریں کی ہیں جو پسماندہ طبقات کے خلاف تشدد امتیازاور دشمنی کو ہوا دیتی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے ایشیاء کے ڈائریکٹر ایلن پیرسن نے کہا ہے کہ ’’ہندوستان کےو زیر اعظم مودی اور بی جے پی کے لیڈران نے اپنی انتخابی مہم کی تقریروں کے درمیان مسلمانوں اور اقلیتی گروپوں کے خلاف جھوٹے دعوے کئے تھے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ’’ان اشتعال انگیزتقریروں،مودی انتظامیہ کے تحت اقلیتوں کے خلاف امتیاز اور حملوں کے درمیان ، نے مسلمانوں ، عیسائیوں اور ملک کے دیگر اقلیتی طبقات کے خلاف بدسلوکی کومعمول بنا دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے مزید کہا ہے کہ انہوں نے ۱۶؍ مارچ کے بعد ملک میں ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے بعد نریندر مودی کی تمام ۱۶؍تقریروں کا تجزیہ کیا ہے۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق ’’ووٹ حاصل کرنے کیلئے فرقہ وارانہ جذبات کو ٹھیس پہنچانا غلط ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: جونیئر این ٹی آر نے ’’دیورا: پارٹ ۱‘‘ کی شوٹنگ مکمل کی
ادارے نے مزید کہا ہےکہ تقریباً ۱۱۰؍ تقریروں میں مودی نے اسلاموفوبیاکے ریمارک دیئے ہیںجن کا مقصد ظاہری سطح پر اپوزیشن کو کمزور بتانا تھااور غلط معلومات کے ذریعے ہندو طبقے میں خوف پیدا کرنا تھا۔ادارے نے نریندرمودی کی انتخابی مہم کی تقریروں کے حوالے سے کہا کہ مہم کے دوران مودی نے مسلسل جھوٹے دعوؤں، کہ اگر اپوزیشن پارٹیاں اقتدار میں آتی ہیں تو ہندوطبقے کا ایمان، ان کی عبادتگاہیں، زمینیںاور ان کے طبقے کی خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے،سے ہندو طبقے میں خوف پیدا کیا ہے۔مودی نے اپنی ایک تقریر میں مسلمانوں کو’’درانداز‘‘ قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ مسلمانوں کے دیگر طبقوں کے مقابلے میں ’’زیادہ بچے ہیں۔‘‘خیال رہے کہ قومی سطح پر مودی کی اس تقریر پر شدید مذمت کی گئی تھی ۔ مودی نے ہندو طبقے کے اندر یہ خوف پیدا کیا تھا کہ ہندو طبقہ ملک میں اقلیت بن کر رہ جائے گا۔
۱۴؍ مئی کو جھارکھنڈ میں مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’’ہمارے بھگوانوں کے بتوں کوتوڑا جا رہا ہےاور یہ ’’درانداز‘‘ (مسلمان) ہماری ماؤں اوربیٹیوں کے تحفظ کیلئے خطرہ ہیں۔ ۱۷؍ مئی کو بارہ بنکی،اترپردیش میں مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’’اپوزیشن رام مندر کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور وہ اس پر بابری مسجد کھڑی کرسکتی ہے۔مودی نے اسی تقریر میں مزید کہا تھا کہ ’’اگراپوزیشن اتحاد اقتدار میں آتا ہے تو وہ ’’رام للا‘‘ کو ٹینٹ بھیج دیں گے اور رام مندر پر بلڈورز چلا دیں گے۔‘‘
رائٹس واچ نے مزید کہا ہے کہ ’’دیگر بی جے پی لیڈران، جن میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ، اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما، مرکزی وزیر کھیل انوراگ ٹھاکرنے شامل ہیں، نے بھی اس طرح کی تقریریں کی ہیں جن کا مقصد ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنااور ہندو طبقے میں خوف پیدا کرنا تھا۔ایچ آر ڈبلیو نے یہ الزام عائدکیا ہے کہ ہندوستان کا الیکشن کمیشن (ای سی) ان تشدد کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکامیاب ہواہے۔