برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں واضح ہوا ہے کہ کووڈ ۱۹؍ کے لاک ڈاؤن میں پیدا ہونے والے بچے چونکہ الگ تھلگ ماحول میں پلے بڑھے اس لئے وہ مختلف مسائل کا شکار ہیں جن میں اہم ترین بات چیت کا مسئلہ ہے۔
EPAPER
Updated: January 04, 2025, 9:53 PM IST | London
برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں واضح ہوا ہے کہ کووڈ ۱۹؍ کے لاک ڈاؤن میں پیدا ہونے والے بچے چونکہ الگ تھلگ ماحول میں پلے بڑھے اس لئے وہ مختلف مسائل کا شکار ہیں جن میں اہم ترین بات چیت کا مسئلہ ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جو بچے لاک ڈاؤن کے دوران پیدا ہوئے اور اس سال اسکول شروع کیا ہے، وہ اپنے نام کو پہچان کر اس پر ردعمل ظاہر کرنے سے قاصر ہیں۔ ستمبر میں انگلینڈ میں ۴؍ سرکردہ خیراتی اداروں کے اساتذہ کی ایک تقریب میں بچوں میں نشوونما کی سطح کے بارے میں خدشات کو اجاگر کیا گیا۔ دی ٹیلی گراف کے ساتھ مشترکہ رپورٹ میں، چار خیراتی اداروں – سیو دی چلڈرن، چائلڈ پورٹی ایکشن گروپ، دی چلڈرن رائٹس الائنس فار انگلینڈ، اور سینٹر فار ینگ لائیوز نے وبائی امراض کے دوران پیدا ہونے والے بچوں کے بارے میں ۳۵۰؍ سے زیادہ اساتذہ کی رائے شماری کی۔
یہ بھی پڑھئے:’’ہمیں یاد رکھئے گا‘‘، فلسطینی سفیر یواین سلامتی کاؤنسل میں روپڑے
تقریباً تین چوتھائی اساتذہ نے کہا کہ ۲۰۲۰ء میں پیدا ہونے والے ’’کووڈ بچوں‘‘ میں گزشتہ سال کے بچوں کے گروپوں کے مقابلے میں زیادہ مشکلات نظر آئیں۔ ۴۴؍ فیصد اساتذہ نے کہا کہ بیشتر بچے ایسے تھے ’’جو ابھی اسکول میں داخل ہونے کے اہل نہیں ہیں۔‘‘ بات چیت کے مسئلہ کو اب تک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا گیا۔ ۹۰؍ فیصد اساتذہ نے کہا کہ انہوں نے بات چیت میں جدوجہد کرنے والے طلبہ میں زبان کے مسائل دیکھے۔ اسپیچ اینڈ لینگویج یو کے کی چیف ایگزیکٹیو جین ہیرس نے کہا کہ کچھ بچے کلاس میں پہنچ رہے ہیں مگر پکارے جانے پر اپنے نام کو پہچان کر اس پر ردعمل کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہمارے پاس اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ایسے بچوں کی ہے جو بولنے میں جدوجہد کر رہے ہیں، اور یہ اہم مسئلہ ہے؛ حکومت اور والدین، دونوں کیلئے۔ اگر ہم نے اس جانب توجہ نہیں دی تو بہت دیر ہوجائے گی۔ بچوں میں درست اور مستحکم نشو ونما کا بحران پیدا ہوجائے گا۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے:طلاق کے بعد بریڈ پٹ، انجلینا جولی کو ۸۰؍ ملین ڈالر ادا کریں گے
سیو دی چلڈرن کے پالیسی ڈائریکٹر ڈین پاسکنز نے کہا کہ ’’اگرچہ وبائی بیماری ختم ہو چکی ہے مگر بچے اس کے طویل مدتی نتائج کے ساتھ بڑے ہو رہے ہیں۔اب ہم پرائمری اسکول میں داخل ہونے والے بچوں میں بات چیت اور بولنے میں جدوجہد میں تیزی سے اضافہ دیکھ رہے ہیں۔‘‘ ماہرین کے مطابق، وبائی امراض کے دوران بہت سی چیزیں رُک گئی تھیں جن میں بچوں کا دوسرے بچوں سے ملنا جلنا ختم ہوگیا تھا۔ ایسے بچوں نے صرف اپنے والدین کو دیکھا اور ان ہی سے بات چیت کی۔ وہ بیرونی عوامل اور سماجی تعامل کے بغیر بڑے ہوئے۔ بچوں کی تاخیر سے ہونے والی نشو ونما میں اسمارٹ فونز اور ٹیبلیٹس نے اہم کردار ادا کئے ہیں۔ یہ چیزیں ’’ڈجیٹل ڈمی‘‘ ہیں یعنی بچے انسانوں کے ساتھ نہیں بلکہ ان آلات کے ساتھ بڑے ہوئے۔ ماہرین نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ چھوٹے بچوں میں بات چیت کے مسائل کا یہ اثر بھی ہوا ہے کہ ان کا رویہ لاک ڈاؤن سے پہلے ہونے والے بچوں سے مختلف ہے اور ان میں توجہ کی کمی ہے۔ سروے میں شامل ۸۴؍ فیصد اساتذہ نے کہا کہ جن بچوں نے اس سال اسکول شروع کیا وہ کم توجہ کے دورانیے اور ارتکاز کی دشواریوں کا شکار ہیں۔