• Sat, 16 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہندوستان نے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کی رکنیت کے حق میں ووٹ دیا

Updated: May 10, 2024, 10:20 PM IST | Hague

ہندوستان نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے مسودے کے حق میں ووٹ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطین اہل ہے اور اسے اقوام متحدہ کے مکمل رکن کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے۔ اس سے پہلے اس طرح کی کوشش امریکی ویٹو کے سبب ناکام ہو گئی تھی۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ہندوستان نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے مسودے کے حق میں ووٹ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطین اہل ہے اور اسے اقوام متحدہ کا مکمل رکن کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے اور سلامتی کونسل کو اس معاملے پر فلسطین کے حق میں دوبارہ غور کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ۱۹۳؍رکنی جنرل اسمبلی کاصبح ایک ہنگامی خصوصی اجلاس ہوا جہاں اقوام متحدہ میں ریاست فلسطین کی مکمل رکنیت کی حمایت میں عرب گروپ کی قرارداد `اقوام متحدہ میں نئے اراکین کی شمولیت پیش کی گئی۔ قرارداد کے حق میں بشمول ہندوستان۱۴۳؍ووٹ پڑےجبکہ ۹؍، مخالفت میں اور ۲۵؍ غیر حاضر رہے۔ ووٹ ڈالنے کے بعد یو این جی اے ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ قرارداد میں طے کیا گیا کہ ریاست فلسطین رکنیت کے لیے اہل ہے۔ 
ہندوستان پہلی غیر عرب ریاست تھی جس نے ۱۹۷۴ءمیں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو فلسطینی عوام کے واحد اور جائز نمائندے کے طور پر تسلیم کیا، ہندوستان۱۹۸۸ءمیں بھی فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں سے ایک تھا اور ۱۹۹۶ءمیں دہلی نے غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کا نمائندہ دفترکا افتتاح کیا۔ جسے بعد میں ۲۰۰۳ءمیں رام اللہ منتقل کر دیا گیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسپین، آئرلینڈ اور یورپی یونین کے دیگر ممالک ۲۱؍ مئی کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گے

اس ماہ کے شروع میں، اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مستقل مندوب روچیرا کمبوج نے کہا تھا کہ’’ اقوام متحدہ میں رکنیت کے لیے فلسطین کی درخواست کو سلامتی کونسل میں ویٹو کی وجہ سے منظور نہیں کیا گیا تھا۔ میں یہاں شروع میں یہ بتانا چاہوں گا کہ ہندوستان کے دیرینہ موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر مناسب وقت پر دوبارہ غور کیا جائے گا اور فلسطین کی اقوام متحدہ کا رکن بننے کی کوشش کی توثیق ہو جائے گی۔ ‘‘قرارداد کے ایک ضمیمہ میں کہا گیا ہے کہ ریاست فلسطین کی شرکت کے اضافی حقوق اور مراعات اس سال ستمبر میں شروع ہونے والے جنرل اسمبلی کے ۷۹؍ویں اجلاس سے موثر ہوں گے۔ 
ان میں رکن ممالک کے درمیان حروف تہجی کی ترتیب میں بیٹھنے کا حق شامل ہے: کسی گروپ کی جانب سے بیان دینے کا حق، بشمول بڑے گروپوں کے نمائندوں کے درمیان؛ ریاست فلسطین کے وفد کے ارکان کا جنرل اسمبلی کی پلینری اور مین کمیٹیوں میں بطور افسر منتخب ہونے کا حق اور اقوام متحدہ کی کانفرنسوں اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور اجلاسوں میں مکمل اور موثر شرکت کا حق۔ فلسطین، ایک مبصر ریاست کی حیثیت سے، جنرل اسمبلی میں ووٹ ڈالنے یا اقوام متحدہ کے اداروں کے سامنے اپنی امیدواری پیش کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ 

یہ بھی پڑھئے: امریکہ کی دھمکی غزہ میں اسرائیلی حملوں کو نہیں روک سکتی: بنجامن نیتن یاہو

اپریل میں فلسطین نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو ایک خط بھیجا تھا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے اس کی درخواست پر دوبارہ غور کیا جائے۔ کسی ریاست کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کیلئے، اس کی درخواست کو سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی دونوں سے منظور کیا جانا چاہیے، جہاں ریاست کو مکمل رکنیت دینے کے لیے دو تہائی ارکان کی موجودگی اور ووٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ گزشتہ ماہ امریکا نے سلامتی کونسل میں فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔ ۱۵؍ملکی کونسل نے ایک مسودہ قرارداد پر ووٹ دیا تھا جس میں اقوام متحدہ کی ۱۹۳؍رکنی جنرل اسمبلی سے سفارش کی گئی تھی کہ ریاست فلسطین کو اقوام متحدہ میں رکنیت عطا کی جائے۔

یہ بھی پڑھئے: لوک سبھا الیکشن: امریکہ ہندوستان کے انتخابات میں مداخلت کر رہا ہے: روس کا الزام

قرارداد کے حق میں ۱۲؍ووٹ پڑے، سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ نے حصہ نہیں لیا اور امریکا نے اسے ویٹو کر دیا۔ منظور کیے جانے کے لیے، مسودہ قرارداد کے لیے کونسل کے کم از کم نو اراکین کو اس کے حق میں ووٹ دینے کی ضرورت تھی، اس کے پانچ مستقل اراکین - چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ میں سے کسی کے ویٹو کے بغیر۔ فی الحال، فلسطین اقوام متحدہ میں ایک غیر رکن مبصر ریاست ہے، یہ درجہ اسے ۲۰۱۲میں جنرل اسمبلی نے دیا تھا۔ یہ درجہ فلسطین کو عالمی ادارے کی کارروائیوں میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے لیکن وہ قراردادوں پر ووٹ نہیں دے سکتا۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ میں واحد دوسری غیر رکن مبصر ریاست ہولی سی ہے، جو ویٹیکن کی نمائندگی کرتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK