Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایران کا جوہری پروگرام ایک معمہ کی طرح ہے : رافائل گروسی

Updated: April 18, 2025, 12:01 PM IST | Agency | Tehran

آئی اے ای اے کے سربراہ کا دورہ ٔ ایران ،دورہ پر روانگی سے قبل انہوں نےیہ بھی دعویٰ کیا کہ’’ ایران جوہری بم بنانے سے اب بہت دور نہیں ہے۔‘‘

Iranian Foreign Minister Abbas Araqchi and IAEA Chief Rafael Grossi. Photo: INN
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی اورآئی اے ای اے کےسربراہ رافائل گروسی۔ تصویر: آئی این این

جوہری توانائی سے متعلق اقوام متحدہ کی نگراں ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافائل گروسی بدھ کو تہران پہنچے اور انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کی۔ جمعرات کو انہوں نے ایران کی جوہری توانائی کی ایجنسی کے سربراہ محمد اسلامی سے بھی ملاقات کی۔ تاہم ایران کے اپنے دورے پر روانہ ہونے سے قبل انہوں نے فرانسیسی اخبار ’لموند‘ سے بات چیت میں کہا تھاکہ ایران جوہری بم بنانے کی صلاحیت سے اب ’بہت دور نہیں ‘ ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’یہ ایک معمے کی طرح ہے۔ ان کے پاس مختلف اجزا ہیں اور ایک دن وہ بالآخر انہیں ایک ساتھ جمع کر سکتے ہیں۔ ‘‘
  جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ ایران کے ’’وہاں تک پہنچنے سے پہلے اب بھی ایک راستہ باقی ہے۔ مگر یہ بات تسلیم کرنی ہو گی کہ وہ (ایران) اب اس سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ‘‘انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ گروسی نے کہا ’’بین الاقوامی برادری کو صرف یہی بتانا کافی نہیں ہے کہ ہمارے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں، تاکہ وہ ایران کی بات پر یقین کر لے۔ بلکہ ہمارا اس قابل ہونا بھی ضروری کہ ہم اس دعوے کی تصدیق بھی کر سکیں۔ ‘‘
 واضح رہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک ایک طویل عرصے سے ایران پر شک کرتے رہے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم تہران اس الزام کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن شہری مقاصد کیلئے ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:گوگل نے ۲۰۲۴ءمیں ۱ء۵؍ بلین’’خراب‘‘ اشتہارات بلاک کئے: ایڈز سیفٹی رپورٹ

ایرانی امریکی مذاکرات کا اگلا دور
 گروسی کا ایران کا یہ دورہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان جوہری امور پر آئندہ سنیچرکو ہونے والے دوسرے دور کے مذاکرات سے پہلے ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سنیچرکو دونوں ممالک کے درمیان پہلے دور کی بات چیت عمان میں ہوئی تھی اور فریقین نے اس ملاقات کو ’تعمیری‘ قرار دیا تھا۔ اسی دوران ایران نے اب اس بات کی تصدیق بھی کر دی ہے کہ امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کا اگلا دور اب رواں ہفتے کے اواخر میں روم میں ہوگا۔ اطلاعات ہیں کہ دوسرے دور کی بات چیت میں تکنیکی تحفظات اور تصدیقی اقدامات پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ ایران کی جوہری پیش رفت ہتھیار سازی کی اہلیت تک نہ پہنچ سکے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ وہ ایک ممکنہ معاہدہ کے فریم ورک پر بات چیت شروع کرنے کی امید رکھتے ہیں لیکن اس کیلئے امریکہ کا’تعمیری مذاکراتی موقف‘ ضروری ہے۔ 
 عمان میں پہلے دور کی اعلیٰ سطحی بات چیت کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے شر انگیز لہجے میں کہا تھا ’’ ایران کو’جوہری ہتھیار کے تصور‘ سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ یہ بنیاد پرست لوگ ہیں، اور ان کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتے۔ ‘‘ اس کے علاوہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے تو یہاں تک کہا تھا کہ مذاکرات اچھی طرح جاری ہیں اور تہران نے روس کے ساتھ مشاورت کیلئے ایک وفد ماسکو بھی بھیجا ہے۔ 
یورینیم کی افزودگی پر کوئی سمجھوتہ نہیں 
 ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ ’’ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی حقیقی اور قابل قبول معاملہ ہے۔ البتہ ہم ممکنہ خدشات کے رد عمل میں اعتماد سازی کے اقدامات کیلئے تیار ہیں، تاہم مسئلہ افزودگی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ ‘‘یاد رہے کہ مشرق وسطیٰ کیلئے امریکہ کے موجودہ ایلچی اسٹیو وٹکوف نے یورینیم کی افزودگی کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ایران کو کسی بھی جوہری معاہدے کے حصے کے طور پر یورینیم کی افزودگی کو ’’روکنا اور ختم کرنا‘‘ چاہئے۔ عراقچی نے اپنی بات اسی بیان کے جواب میں کہی۔ 
 اس سال جنوری میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد ٹرمپ نے ’’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی اپنی پالیسی اختیار کرتے ہوئے ایران کے خلاف سخت پابندیاں دوبارہ لگا دی تھیں۔ مارچ میں صدر ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھی لکھا تھاجس میں مذاکرات پر زور دیا گیا تھا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی کوئی معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ایران کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔ 
 ایرانی تیل کی کمپنیوں او ر ٹینکروں پر پابندیاں 
 اس دوران امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے ایران امریکہ مذاکرات کے دوران دباؤ بڑھانے کیلئے ایران کی کچھ تیل شپنگ کمپنیوں اور آئل ٹینکرز پر پابندیاں لگادی گئی ہیں ۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ امریکہ کی نئی پابندیوں میں چین میں کام کرنے والی آزاد چھوٹی آئل ریفائنریز شامل ہیں ۔ امریکی محکمہ خزانہ کے بیان کے مطابق چین میں کام کرنے والی آئل ریفائنریز ایک ارب ڈالر سے زائد کے ایرانی خام تیل کی خریداری میں شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق چین ایرانی تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، چین ایران پر امریکی پابندیوں کو تسلیم نہیں کرتا، چین اور ایران کے درمیان تجارت زیادہ تر ڈالر کے بجائے چینی کرنسی میں کی جاتی ہے۔ دونوں ممالک دو طرفہ تجارت درمیانی افراد کے نیٹ ورک کے ذریعے کرتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK