اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج، صرف تل ابیب میں ۵؍ لاکھ افراد کا مظاہرہ، پورا شہر تھم گیا، دیگر شہرو ں میں ڈھائی لاکھ افراد گھروں سے نکلے، یرغمالوں کی رہائی کیلئے جنگ بندی کا مطالبہ۔
EPAPER
Updated: September 09, 2024, 9:53 AM IST | Agency | Tel Aviv-Yafo
اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج، صرف تل ابیب میں ۵؍ لاکھ افراد کا مظاہرہ، پورا شہر تھم گیا، دیگر شہرو ں میں ڈھائی لاکھ افراد گھروں سے نکلے، یرغمالوں کی رہائی کیلئے جنگ بندی کا مطالبہ۔
غزہ میں ۶؍ یرغمالوں کی لاشیں ملنے کے بعد اسرائیل میں وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف عوامی برہمی تیزی سے بڑھنےلگی ہے۔ یرغمالوں کی رہائی کیلئے حماس سے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے سنیچر کو اسرائیل کے مختلف شہروں میں ساڑھے ۷؍ لاکھ سے زائد افراد سڑکوں پر اترے۔ تل ابیب سے شائع ہونےوالے اخبار ’’اسرائیل ٹائمز‘‘ نے اسے اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ قراردیا ہے۔ مظاہرہ کا انعقاد کرنے والے گروپ ’پرو ڈِیموکریسی پروٹیسٹ موومنٹ‘ کے مطابق سنیچر کی شام پورے ملک میں بیک وقت احتجاج کیاگیا جس کے دوران صرف دارالحکومت تل ابیب کی سڑکوں پر ۵؍ لاکھ مظاہرین تھے۔ مظاہرہ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ پورا تل ابیب تھم گیاتھا۔ یہاں احتجاج ’ہوسٹیج فیملی فورم‘ کے بینر تلے کیاگیا۔ منتظمین کے مطابق دیگر شہروں میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد اپنے گھروں سے نکلے۔
اسرائیل پر حماس کے حملے کو ۱۱؍ ماہ مکمل ہوچکے ہیں۔ حملے کے وقت حماس کے جنگجوؤں نے ایک ہزار ۱۳۹؍ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیاتھا اور ۲۴۰؍ اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنالیا تھا۔ ان میں سے ۱۰۵؍ یرغمالوں کو ۲۴۰؍ فلسطینی قیدیوں کے بدلے حماس رہا چکا ہےجبکہ ۱۰۰؍ سے زائد اب بھی اس کی قید میں ہیں۔ اندیشہ ہے کہ ایک تہائی یرغمال اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ غزہ میں ۶؍ یرغمالوں کی لاشیں ملنے کے بعد اسرائیلی عوام اور بطور خاص یرغمالوں کے اعزہ کی بے چینی بڑھ گئی ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ تل ابیب اگر جنگ بندی پر راضی نہ ہوا اور غزہ پر حملے روکے نہ گئے تو بقیہ یرغمال بھی موت کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ یرغمالوں کی رہائی کے نام پر شروع کی گئی جنگ میں ۷؍ اکتوبر کےبعدسے اب تک نیتن یاہو سرکار ۴۰؍ ہزار ۹۷۲؍ فلسطینیوں کو شہید اور ۹۴؍ ہزار ۷۶۱؍ کو زخمی کر چکی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:جموں کشمیر: بی جے پی کا عمر عبداللہ پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام
’ٹائمز آف اسرائیل‘نے اپنی رپورٹ میں تل ابیب میں ۵؍ لاکھ افراد کے احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اگر یہ تعداد صحیح ہے تو یہ اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج ہے۔ ‘‘ اسرائیلی پولیس نے تل ابیب میں ۵؍مظاہرین کو گرفتار کرنے کی تصدیق کی ہے تاہم اس نےمظاہرین کی تعداد پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ البتہ ڈرون سے لی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں تل ابیب کی سڑکیں انسانوں سے بھری ہوئی نظر آرہی ہیں۔ تل ابیب کے ساتھ ہی یروشلم، حیفہ، ریشون، لیزیون، بیر شیبا، نیتنیااور دیگر شہروں میں بھی زبردست مظاہروں کا انعقاد کیاگیا۔
دوسری طرف مظاہروں کے باوجود نیتن یاہو اپنے موقف پر قائم ہیں کہ یرغمالوں کی رہائی حماس پر فوجی دباؤ اور حملے کے نتیجے میں ہی ہوسکتی ہے۔
ان کا یہ موقف اس کےباوجود ہے کہ ۱۱؍ ماہ کی طویل بمباری اور غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کردینے کے کے بعد بھی وہ دو ایک یرغمال سے زیادہ کو رہا نہیں کراسکے۔ جو یرغمال رہا ہوئے ہیں وہ حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے بدلے ہی ہوئے ہیں۔ الجزیرہ کے نمائندہ حمزہ سلہوط کے مطابق’’پچھلے ہفتے کے مقابلے مظاہرین کی تعداد میں ۲؍ لاکھ کا اضافہ ہوا ہے مگر نیتن یاہو کا ماننا ہے کہ بقیہ یرغمالوں کو گھر واپس لانے کاطریقہ فوجی دباؤ ہی ہے۔ رہائی کیلئے کسی معاہدہ کا امکان ابھی دور دور تک نظر نہیں آرہاہے۔ ‘‘ دوسری طرف مظاہرین یاہو کے اس موقف کو ان کے سیاسی مفاد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ مظاہرین کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے یرغمال غازی موسیس کے بھتیجے عرفات مشیکاوا کا کہنا ہے کہ ’’اب تک جو لوگ باہر نہیں نکل رہے تھے، جو عام طور پر مظاہروں کا حصہ نہیں ہوتےوہ بھی غمزدہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی آواز بھی اس چیخ کا حصہ ہونا چاہئے کہ : یرغمالوں کو معاہدہ کے بدلے رہا کرواؤ، ان کی جانوں کو خطرہ میں مت ڈالو۔ ‘‘ شے ڈِک مین جن کا چچازاد بھائی غزہ میں مارا گیا، نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرا بھائی جولائی میں پیش کئے گئے معاہدہ کے تحت رہا ہونے کے بعد قریب تھا مگر نیتن یاہو نے انکار کردیا۔ ‘‘ ڈِکمین نے کہا کہ ’’گزشتہ جمعرات کو کارمیل زندہ تھا، ایک جنگجو نے جب فوجی دباؤ محسوس کیاتو اس نے گولی چلادی۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’فوجی دباؤ موت کا باعث بن رہاہے۔ ‘‘ مظاہرین نے تل ابیب اور دیگر شہروں میں سڑکوں پر آگ جلا کر اور نیتن یاہو کے خلاف نعرے بلند کرکے اپنے غصے کا اظہار کیا۔ احتجاج کا یہ سلسلہ جس نے گزشتہ سنیچر (۳۱؍ اگست ) سے شدت اختیار کی ہے، جاری رہنے کا امکان ہے۔