• Fri, 22 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’جنگ کے خاتمہ تک قیدیوں کے تبادلہ کا معاہدہ نہیں ہوگا‘‘

Updated: November 22, 2024, 1:25 PM IST | Agency | Ramallah

حماس لیڈر خلیل الحیہ کا دوٹوک اعلان ،ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ جنگ روکے بغیر قیدیوں کا تبادلہ ممکن نہیں ہے کیونکہ دونوں باتوں کا ایک دوسرے سے تعلق ہے، جنگ بندی سے متعلق مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کا ذمہ دار اسرائیلی وزیر اعظم کو قرار دیتے ہوئے انہوں نےکہا کہ دیگر ثالثوں کے ساتھ ہماری گفتگو جاری ہے۔

Khalil al-Hiya, head of the political bureau of Hamas. Photo: INN
حماس کے سیاسی بیوروکے سربراہ خلیل الحیہ۔ تصویر : آئی این این

حماس کے سیاسی بیورو کے رکن خلیل الحیہ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے تک اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں دوٹوک کہہ دیا کہ’’ جنگ کو روکے بغیر قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہو گا، کیونکہ دونوں باتوں کا ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جارحیت رک جائے اور کسی بھی قیدی کے تبادلے کیلئے اسے پہلے جنگ کو روکنا چاہئے۔ ‘‘
الحیہ جنہوں نے مصری اور قطری ثالثوں کے ساتھ گفتگو میں حماس کی مذاکراتی ٹیم کی قیادت کی ہے، اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کو مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ الحیہ نے کہا کہ ’’اس مسئلے کو آگے بڑھانے کیلئے کچھ ممالک اور ثالثوں کے ساتھ رابطے جاری ہیں۔ ہم تیار ہیں اور ان کوششوں کو جاری رکھنے کیلئے پیش رفت کر رہے ہیں۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’حقیقت ثابت کرتی ہے کہ رکاوٹ ڈالنے والا نیتن یاہو ہے۔ یہ حقیقت قریب اور دور کے ہر شخص کو معلوم ہے۔ ‘‘ ادھر نیتن یاہو نے منگل کو اپنے غزہ دورے کے دوران کہا کہ حماس جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ پر حکومت نہیں کرے گا۔ اسرائیل نےحماس کی فوجی صلاحیتوں کو تباہ کر دیا ہے۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ اسرائیل نے بقیہ ۱۰۱؍ قیدیوں کو تلاش کرنے کی کوشش ترک نہیں کی ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ابھی بھی غزہ کی پٹی میں موجود ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کی واپسی کیلئے ۱۵۰؍ لاکھ ڈالر کے انعام کی پیشکش کی ہے۔ حماس ایک ایسے معاہدے پر پہنچنا چاہتا ہے جس میں جنگ کا خاتمہ ہو اور اس میں غزہ میں زیر حراست اسرائیلی اور غیر ملکی قیدیوں کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی رہائی بھی شامل ہو۔ 

یہ بھی پڑھئے:غزہ جنگ: مہلوکین کی تعداد ۴۴؍ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے: وزارت صحت

امدادی ٹرکوں  کو روکا جا رہا ہے  
الحیہ نے گفتگو کے دوران کہا کہ اسرائیلی حکام محصور غزہ میں انسانی امداد کے داخلے کو محدود کرنے کیلئے ہر ممکن طریقے سے کام کر رہے ہیں اور روزانہ صرف ۱۰۰؍ ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں حماس کے ٹیلی گرام چینل نے الحیہ کی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل غزہ تک انسانی امداد کی ترسیل میں ہر قسم کی رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اسرائیل روزانہ اوسطاً ۴۰؍ ٹرکوں کو غزہ کے شمالی علاقوں میں داخلے کی اجازت دیتا ہے اور ۶۰؍سے ۷۰؍ کاروں کو غزہ کے جنوبی حصے میں کارم شالوم چیک پوائنٹ کے ذریعے داخلے کی اجازت دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ’’کئی دن تک انسانی امداد سے لدے ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ ‘‘
 غزہ کی تباہی میں امریکہ برابر کا شراکت دار
 ایک اور تناظر میں حماس نے امریکہ کو غزہ کی جنگ میں ’براہ راست شراکت دار‘ قرار دیا۔ حماس نے کہا کہ اس نے اپنی ویٹو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی قرارداد کے اجراء میں رکاوٹ ڈالی جس میں غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ایک بار پھر امریکہ نے ثابت کیا کہ وہ ہمارے خلاف جارحیت میں براہ راست شراکت دار ہے۔ نسل کشی اور نسلی تطہیر کی جنگ کا براہ راست ذمہ دار ہے، بالکل اسی طرح جیسے قابض اسرائیل ذمہ دار ہے۔ ‘‘ یاد رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کی اس جنگ کو ایک سال اور ایک ماہ کاعر صہ گزر چکا ہے اور غزہ پوری طرح سے تباہ ہو چکا ہے۔ 
جنوبی غزہ میں ۱۶؍ فلسطینی قتل
بدھ کے روز جنوبی غزہ کے مختلف علاقوں پر اسرائیلی فضائی حملوں میں کم ازکم ۱۶؍ فلسطینی مارے گئے۔ فلسطینی سول ڈیفنس سروس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کے مضافات میں بے گھر افراد کے خیموں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں کم از کم۸؍ فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے، جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔ وسطی غزہ کے نصیرات پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فوج نے خالد بن الولید اسکول کو نشانہ بنایا جسکے نتیجے میں ۸؍ فلسطینی فوت ہو گئے۔ العودہ اسپتال کے فلسطینی طبی ذرائع نے بتایا کہ ’’شہداء میں سے زیادہ تر بچے تھے، جن میں سے کچھ کےاعضا جمع کرکے لائے گئے۔ ‘‘ذرائع نے واضح کیا کہ اسرائیلی حملوں کی وجہ سے العودہ اسپتال متاثرین اور زخمیوں کی بڑی تعداد سے نمٹنے میں ناکامی کا شکار ہے۔ کیمپ میں طبی صلاحیتوں اور سہولتوں کی کمی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK