اسماعیل ہانیہ نے اسرائیل پر مذاکرات سے متعلق سنجیدگی کے فقدان کا الزام عائد کیا، المواسی میں جاں بحق ہونےوالوں کی تعداد ۱۰۰؍ کے قریب پہنچ گئی۔
EPAPER
Updated: July 15, 2024, 1:38 PM IST | Agency | Ramallah
اسماعیل ہانیہ نے اسرائیل پر مذاکرات سے متعلق سنجیدگی کے فقدان کا الزام عائد کیا، المواسی میں جاں بحق ہونےوالوں کی تعداد ۱۰۰؍ کے قریب پہنچ گئی۔
المواسی میں قتل عام پر عالمی برادری برہم ہے۔ اسی دوران المواسی پر حملے کے بعد حماس کے غزہ جنگ بند ی سے متعلق مذاکرات سےعلاحدہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا لیکن حماس کا کہنا ہے کہ اس نے ابھی مذاکرات سے علاحدہ ہونے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن حماس کے اہم لیڈر اسماعیل ہانیہ نے مذاکرات کے ثالث ممالک قطر اور مصر سے رابطہ کرکے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اسی دوران غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ المواسی پر اسرائیلی حملے میں جاں بحق افراد کی تعداد ۱۰۰؍ کے قریب ہوگئی ہے۔ اس حملے کی عالمی بر ادری نے شدید مذمت کی ہے۔ المواسی کیمپ پر خونریز حملے کی حماس کے ساتھ ساتھ اردن، ایران، ترکی، مصر اورقطر نے مذمت کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہےکہ اس حملے سے جنگ بندی کی کوششیں متاثر ہوں گی۔ اسی دوران حماس کا کہنا ہے کہ ان کے فوجی لیڈر محفوظ ہیں جن کو نشانہ بنانے کا جواز پیش کرکے اسرائیل نے المواسی جیسے محفوظ سمجھے جانے والے کیمپ پر حملہ کیا تھا۔ حماس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ گروپ کے فوجی لیڈر محمدالضیف اسرائیل کی جانب سے جنوبی غزہ کے کیمپ پر بم حملے کے بعدمحفوظ ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے مطابق اس نے اس حملے میں حماس کے مذکورہ مطلوب کمانڈر کو نشانہ بنایا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: اقوام متحدہ کا دنیا کے ہر اسکول تک انٹرنیٹ پہنچانے کا منصوبہ
اسی دوران اسماعیل ہانیہ نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے ثالثوں اور دیگر ممالک کو فون کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر حملے روکنے کیلئے دباؤ ڈالیں۔
اس بارے میں حماس کے سینئر عہدیدار نے بتایا کہ المواسی پر حملے کے بعد حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے بین الاقوامی ثالثوں قطر اور مصر سے جنگ بندی سے متعلق جاری مذاکرات کے بارے میں بات چیت کی۔
اسماعیل ہانیہ نے دونوں ممالک سے کہا کہ حماس، اسرائیل کی جانب سے سنجیدگی کے فقدان، تاخیر اور رکاوٹ کی مسلسل پالیسی اور غیر مسلح شہریوں کیخلاف جاری قتل عام کی وجہ سے مذاکرات کو روک سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس نے معاہدے تک پہنچنے اور جارحیت کو ختم کرنے کیلئے بڑی لچک دکھائی ہے اور جب قابض حکومت جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی تو وہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کیلئے تیار ہے۔