سعودی عرب نےفیصلے کو مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور جامع حل تک پہنچنے کی طرف ایک مثبت قدم قرار دیا، جنوبی افریقہ نے کہاکہ فیصلہ فلسطین سے متعلق اس کے موقف کے مطابق ہے۔
EPAPER
Updated: July 21, 2024, 10:54 AM IST | Agency | Riyadh/ Cape Town
سعودی عرب نےفیصلے کو مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور جامع حل تک پہنچنے کی طرف ایک مثبت قدم قرار دیا، جنوبی افریقہ نے کہاکہ فیصلہ فلسطین سے متعلق اس کے موقف کے مطابق ہے۔
سعودی عرب نے اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ عدالت (آئی سی جے) کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا جس میں فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کی آباد کاری پالیسی کوبین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قراردیاگیا ہے۔ سعودی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ مملکت نے عالمی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے کا خیرمقدم کیا اور مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل تک پہنچنے کے لیے عملی اقدامات پر زور دیا۔ واضح رہےکہ عالمی عدالت نے جمعہ کو فیصلہ سنایا تھا۔ سعودی کے عرب کے علاوہ جنوبی افریقہ نے بھی عالمی عدالت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ واضح رہےکہ عالمی عدالت انصاف نے یہ فیصلہ مشاورتی رائے کے طورپر جاری کیا ہے اور یہ غیر پابند ہے۔
سعودی عرب میں قائم رابطہ عالم اسلامی نے آئی سی جے کے فیصلے کو مسئلے کے منصفانہ اور جامع حل تک پہنچنے اور فلسطینی عوام کے انسانی اور قانونی حق کی طرف ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے جو مسلم علماء کی انجمن کے چیئرمین بھی ہیں، کہا ہے کہ یہ فیصلہ اگرچہ غیر پابند ہے لیکن اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ فلسطینیوں کو خود ارادیت اور اپنی آزاد ریاست کے قیام کیلئے ان کے جائز حقوق حاصل ہوں جو عرب امن اقدام اور متعلقہ بین الاقوامی قانونی قراردادوں کے مطابق ہوں۔
عدالتی پینل نے مشاہدہ کیا کہ اسرائیل کی طرف سے آباد کاروں کی مغربی کنارے اور یروشلم میں منتقلی کے ساتھ ساتھ اسرائیل کا ان کی موجودگی برقرار رکھنا چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل۴۹؍ کے خلاف ہے۔ یہ فیصلہ ۷؍ اکتوبر کے حملے کے بعد غزہ پر اسرائیل کی تباہ کن بمباری کے پس منظر میں آیا ہے۔ اس سے قبل سعودی کابینہ نے منگل کو غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف جاری نسل کشی کے اقدام کی مذمت کی تھی۔ مملکت سعودی عرب فلسطینی عوام کے لئے۱۹۶۷ء کی سرحدوں پر محیط ایک آزاد ریاست کی حامی ہے۔ امریکہ اور علاقائی ممالک حماس اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کے ذریعے غزہ تنازع ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں جس میں اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی اور فوجی سرگرمیوں کے دیرپا خاتمے کی ایک شکل شامل ہے۔
یہ بھی پڑھئے: کویت ـ:فلیٹ میں آتشزدگی سے ہندوستان کے ایک ہی خاندان کےچاروں افراد جاں بحق
جنوبی افریقہ کی جانب سے بھی خیر مقدم
جنوبی افریقہ کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ جنوبی افریقہ کی حکومت فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کے قانونی نتائج پر بین الاقوامی عدالت کی مشاورتی رائے کا خیر مقدم کرتی ہے۔ وزارت نے ایک بیان میں کہا ’’جنوبی افریقہ کی حکومت مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کی پالیسیوں اور طرز عمل سے پیدا ہونے والے قانونی نتائج کے بارے میں عالمی عدالت کی مشاورتی رائے کا خیرمقدم کرتی ہے۔ جنوبی افریقہ کےوزیر خارجہ رونالڈ لامولا نے کہا کہ عالمی عدالت کا فیصلہ فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی اسرائیلی آبادکار ی کےتعلق سے جنوبی افریقہ کےدیرینہ موقف کے مطابق ہے۔ انہوں نےعالمی برادری سے اپیل کی کہ اسرائیل کے ایسے اقدامات کے خلاف کارروائی کی جائے جو فلسطینیوں کے خلاف مظالم پر مبنی ہیں۔
واضح رہے جنوبی افریقہ نے ۲۹؍ دسمبر ۲۰۲۳ء کوعالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ دائر کیا تھا جس کے جواب میں ۲۶؍ جنوری کوعالمی عدالت نے اسرائیل کوفلسطینیوں کی نسل کشی روکنے اورغزہ میں انسانی امداد کی بلارکاوٹ ترسیل کو یقینی بنانے کی ہدایت دی تھی۔
’’نیتن یاہو کی ضد۲؍ ریاستی حل میں رکاوٹ نہیں بن سکتی‘‘
یورپی یونین نےاس دوران اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہےکہ ان کی ضد۲؍ ریاستی حل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی کیونکہ اس پورے مسئلہ کا یہی واحد ممکن حل ہے۔ مشرق وسطیٰ کیلئے یورپی یونین کے نمائندہ سوین کوپمینز نے `اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ `کئی ماہ سے جاری غزہ جنگ کیلئے اسرائیل کو بین الاقوامی برادری کی حمایت کی ضرورت ہےلیکن نیتن یاہو طویل مدت تک اس تنازع کے بارے میں یورپی یونین کے خیالات کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ `سوین کوپمینز نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے انتہا پسند دائیں بازو کے اتحادی فلسطینی ریاست کے قیام کے ہی خلاف ہیں۔ ۷؍ اکتوبر کے بعد سے اس مسئلے کا حل اب پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہے، بصورت دیگر امن کی کوششیں ہمیشہ خرابی سے دوچار ہوں گی۔
یورپی نمائندہ نے کہا ’’میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیلی وزیراعظم حالیہ دنوں میں دو ریاستی حل کو مسترد کرنے کیلئے بہت کھل کر سامنے آئےہیں۔ وہ اب یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان کا دنیا کے بیشتر ملکوں اور بہت بڑی آبادی سے اس پر اختلاف ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی ایک فریق نے حل کو مسترد کر دیا ہے اور حل کیلئے ہم اپنی کوششوں کو روک دیں۔ ‘‘خیال رہے پچھلے مہینے یورپی یونین نے اسرائیل کو غزہ میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال پرگفتگو کی دعوت دی تھی۔ کوپمینز نے واضح طورپر کہا کہ یہ صورتحال ناقابل قبول ہےکہ غزہ کے باہرہزاروں امدادی ٹرک کھڑے ہوں اورسرحد میں داخل ہونے کے منتظر ہوں۔