تقریباً ایک سال سے جاری غزہ جنگ میں اب تک اسرائیل کی وحشیانہ جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں ۶ ہزار سے زائد فلسطینی خواتین اور ۱۱ ہزار سے زائد فلسطینی بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان اعدادوشمار میں ان ۲۰ ہزار سے زائد خواتین اور بچوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے جو لاپتہ ہیں یا ملبے تلے دبے ہوسکتے ہیں۔
پیر کو شائع ہوئے آکسفیم کے ایک نئے تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ۷ اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے تاحال جاری غزہ جنگ میں اسرائیل نے اوسطاً ہر تین گھنٹے میں شہر کے بنیادی ڈھانچے بشمول اسکول، اسپتال اور امدادی مراکز کو نشانہ بنایا ہے۔
آکسفیم کے تجزیہ میں یہ بات سامنے آئی کہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والی فلسطینی خواتین اور بچوں کی تعدا، گزشتہ دو دہائیوں کے درمیان ہوئے کسی بھی تنازع میں مساوی عرصہ میں ہوئی خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق، تقریباً ایک سال سے جاری غزہ جنگ میں اب تک اسرائیل کی وحشیانہ جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں ۶ ہزار سے زائد فلسطینی خواتین اور ۱۱ ہزار سے زائد فلسطینی بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان اعدادوشمار میں ان ۲۰ ہزار سے زائد خواتین اور بچوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے جو لاپتہ ہیں یا ملبے تلے دبے ہوسکتے ہیں۔
سال رواں میں دی لانسیٹ میں شائع ہوئی تحقیق میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ غزہ میں مہلوکین کی حقیقی تعداد ۱ لاکھ ۸۶ ہزار سے زیادہ ہوسکتی ہے جس میں بھوک اور صحت عامہ کی سہولیات میسر ہونے کے باعث ہوئی اموات بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:تھائی لینڈ: بس میں آتشزدگی، ۲۵؍ افراد کے جاں بحق ہونے کا اندیشہ
واضح رہے کہ گزشتہ ایک سال سے جاری جنگ میں۔ فلسطین کے بنیادی ڈھانچے کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ شہر کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ غزہ پٹی کی تقریباً ۶۸ء فیصد زرخیز زمین اور سڑکیں تباہ ہوچی ہیں۔ ۳۶ اسپتالوں میں سے صرف ۱۷ جزوی طور پر کام کر رہے ہیں، جو ایندھن، طبی سازو سامان اور صاف پانی کی کمی کا سامنا کررہے ہیں۔
آکسفیم کی ساتھی تنظیم جزور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر امیہ خماش، جو غزہ میں ۹۰ سے زائد پناہ گاہوں پر لاکھوں افراد کی مدد کر رہے ہیں، نے بتایا کہ گزشتہ سال خواتین پر دوہرا بوجھ اٹھانے کے باعث تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کو صحت عامہ کی خدمات کے خاتمہ سمیت بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح اس جنگ کی وجہ سے بچے بھی متاثر ہوئے ہیں، ۲۵ ہزار سے زائد بچے والدین سے محروم ہو چکے ہیں اور جذباتی مسائل میں مبتلا ہیں۔ بیشتر بچے اضطراب اور شدید جسمانی چوٹوں سے دوچار ہیں اور متعدد اپنے اعضاء کھو چکے ہیں۔
آکسفیم کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ گزشتہ اکتوبر سے اب تک ۶۸۰ سے زائد فلسطینی، اسرائیلی آباد کاروں کے حملوں یا فوجی تشدد سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی بازآبادکاروں کے ایک ہزار سے زائد حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے سڑکوں سمیت عوامی بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کے ساتھ ۲ ہزار سے زائد فلسطینیوں کے مکانات مسمار کئے۔