غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کیلئے جاری مذاکرات کے دومیان نیتن یاہو نے رفح پر حملے کا اعادہ کیا جبکہ حماس نے مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی شرط رکھی۔ امن معاہدہ تعطل کا شکار۔
EPAPER
Updated: April 30, 2024, 9:21 PM IST | Telaviv
غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کیلئے جاری مذاکرات کے دومیان نیتن یاہو نے رفح پر حملے کا اعادہ کیا جبکہ حماس نے مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی شرط رکھی۔ امن معاہدہ تعطل کا شکار۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے منگل کو جنوبی غزہ کے شہر رفح میں دراندازی شروع کرنےکے اپنے فیصلے کا اعادہ کیا، جہاں تقریباً ۷؍ماہ سے جاری جنگ کے سبب لاکھوں فلسطینی پناہ لئے ہوئے ہیں حالانکہ اس دوران اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات بھی ہو رہے ہیں۔ نیتن یاہو کے تبصرے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے جنگ بندی مذاکرات کو آگے بڑھانے کیلئے اسرائیل پہنچنے سے چند گھنٹے قبل سامنے آئے ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد یرغمالوں کو آزاد کرانا، آبادی کو راحت پہنچانا اور رفح میں اسرائیلی حملے اور وہاں کے شہریوں کو ممکنہ نقصان سے بچانا ہے۔
سوگوار خاندانوں کے ایک گروپ اور عسکریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والی ایک تنظیم سے بات کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل رفح میں حماس کی بٹالین کو تباہ کرنے کیلئے داخل ہو گا، چاہے یرغمالوں کیلئے جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہو یا نہیں۔ نیتن یاہو کے دفتر کے ایک بیان کے مطابق، ’’یہ خیال کہ ہم جنگ کو اس کے تمام اہداف حاصل کرنے سے پہلے روک دیں گے، سوال ہی سے باہر ہے۔ ہم مکمل فتح حاصل کرنے کیلئے رفح میں داخل ہوں گے اور ہم وہاں حماس کی بٹالین کو ختم کر دیں گے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: فرانسیسی یونیورسٹی کے طلبہ اور حکومت کے درمیان تناؤ میں اضافہ
نیتن یاہو کو اپنے قوم پرست حکومتی شراکت داروں کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ کسی ایسے معاہدے کے ساتھ آگے نہ بڑھیں جو اسرائیل کو رفح پر حملہ کرنے سے روک سکتا ہے، جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ حماس کا آخری بڑا گڑھ ہے۔ اگر وہ کسی معاہدے پر راضی ہوتے ہیں تو ان کی حکومت کوخطرہ لاحق ہو سکتا ہے کیونکہ کابینہ کے سخت گیرکے ارکان نے رفح پر حملے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن غزہ کے ۳ء۲؍ ملین میں سے نصف سے زیادہ لوگوں نے وہاں پناہ لی ہوئی ہے۔ بین الاقوامی برادری، بشمول اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ نے کسی بھی جارحیت کے خلاف جو شہریوں کو خطرے میں ڈالےاسرائیل کو خبردار کیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا نیتن یاہو کے تبصروں کا مقصد اپنے حکومتی شراکت داروں کو خوش کرنا تھا یا ان کا حماس کے ساتھ جاری معاہدے پر کوئی اثر پڑے گا۔
نیتن یاہو فورم سے خطاب کر رہے تھے، جو یرغمالوں کے خاندانوں کا ایک چھوٹا گروپ جو اسیر اسرائیلیوں کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے مرکزی گروپ سے الگ ہے جس نے اشارہ کیا ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کی آزادی پر حماس کو کچلتے ہوئے دیکھنا پسند کرتا ہے۔ اہل خانہ اور ان کے حامیوں نے ہر ہفتے ہزاروں کی تعداد میں اس معاہدے کیلئے مظاہرہ کیا ہےتا کہ یرغمالوں کو گھر لایا جاسکے، اور کہا ہے کہ اسے فوجی کارروائی پر ترجیح دی جانی چاہئے۔ ایک مصری اہلکار اور اسرائیلی میڈیا کے مطابق معاہدے کے طور پر لڑائی میں چھ ہفتے کے تعطل کے بدلے درجنوں یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیل کے زیر حراست سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا۔ لیکن آگے کیا ہوتا ہے اس پر ایک اہم نکتہ باقی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: عالمی عدالت کا جرمنی کے حق میں فیصلہ، اسرائیل کیلئے ’’امداد‘‘ جاری رہے گی
حماس نے اس یقین دہانی کا مطالبہ کیا ہے کہ تمام یرغمالوں کی رہائی سے غزہ میں اسرائیل کے تقریباً سات ماہ سے جاری حملے کا مکمل خاتمہ ہو جائے اور تباہ شدہ علاقے سے اسرائیلی فوجوں کا انخلاء ہو۔ اسرائیل نے صرف ایک توسیعی توقف کی پیشکش کی ہےجس کی رو سے معاہدے کا پہلا مرحلہ ختم ہونے کے بعد اسرائیل اپنا حملہ دوبارہ شروع کرے گا۔ کئی مہینوں کی بات چیت کے دوران اس مسئلے نے ثالثی کی کوششوں کو بار بار سبوتاژ کیا ہے جبکہ نیتن یاہو نے یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے جنگ روکنے کو بارہا مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ رفح پر حملہ عسکریت پسندوں کو تباہ کرنے کیلئے بہت ضروری ہے۔